اہم خبریں

انڈیا میں آئندہ ماہ ریلیز ہونے والی فلم پر تنازع کیوں کھڑا ہو گیا؟

’کشمیر فائلز‘ اور ’دا کیرالہ سٹوری‘ کے بعد انڈیا میں بننے والی ایک اور فلم ’72 حُوریں‘ ریلیز ہونے سے پہلے ہی تنازعات کا شکار ہو گئی ہے۔ اس فلم کے عنوان اور کہانی سے متعلق سیاسی اور مذہبی حلقوں میں تشویش پائی جا رہی ہے۔

یہ فلم 7 جولائی کو ریلیز ہو رہی ہے اور سوشل میڈیا پر جاری کردہ اس کے ٹیزر کے مطابق فلم میں یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ کس طرح دہشت گرد تنظیموں کے رہنما معصوم نوجوانوں کو ’جنت میں حُوروں کا لالچ‘ دے کر غیرمسلموں کے قتل پر آمادہ کرتے ہیں۔

انڈیا اور اس کے زیرانتظام کشمیر میں مذہبی گروہوں اور سیاسی حلقوں نے اس فلم پر شدید تشویش ظاہر کی ہے اور سوشل میڈیا پر بھی اس کے حق میں اور اس کے خلاف بحث جاری ہے۔

بالی وُڈ کے اعزاز یافتہ ہدایتکار سنجے پُورن سنگھ چوہان کی ڈائریکشن میں بننے والی اس فلم میں کشمیری اداکار عامر بشیر نے مرکزی کردار نبھایا ہے اور کشمیری پنڈت فلم ساز اشوک پنڈت فلم کے معاون پروڈیوسر ہیں۔

اشوک پنڈت نے ایک ہفتہ پہلے ٹوئٹر پر فلم کا ’فسٹ لُک‘ جاری کیا تھا، تاہم اس بارے میں شدید ردعمل کے بعد ٹوئٹر نے اشوک پنڈت کے اکاؤنٹ کو معطل کر دیا ہے۔

فلم کے ٹیزر میں کیا ہے؟

100 کروڑ روپے کی لاگت سے بننے والی اس فلم میں ایک نوجوان کی نفسیاتی کشمکش کو دکھایا گیا ہے، جو شدت پسند رہنماؤں کی تقریروں سے متاثر ہو کر مسلح تشدد پر آمادہ ہونے سے متعلق شکوک اور شبہات میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

فلم میں اُسامہ بن لادن، مسعود اظہر اور دیگر شدت پسند افراد کی تصاویر کو دکھاتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ نوجوانوں کو حملوں کے دوران مارے جانے کے بعد جنت میں 72 حُوروں کا ’لالچ‘ دیا جاتا ہے۔

فلم کے معاون پروڈیوسر اشوک پنڈت نے گذشتہ ہفتے ٹویٹ میں لکھا تھا کہ ’وعدے کے مطابق فلم کی پہلی جھلک پیش کرتا ہوں، اُمید ہے آپ کو پسند آئے گی۔ کیا ہو گا اگر آپ کو دہشت گردوں کی طرف سے کیے گئے وعدے میں 72 حُوروں کے بجائے ایک بُری موت ملے۔‘

شدید ردعمل

انڈیا کے سب سے بڑے مذہبی ادارے ’دارالعلوم دیوبند‘ کے مفتی یاسر ندیم الواجدی کا ایک ویڈیو پیغام ٹوئٹر پر جاری ہوا ہے، جس میں انھوں نے کہا ہے کہ ’ آپ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ 72 حُوروں کے لالچ میں دنیا میں دہشت گردی ہو رہی ہے، تو وہ پوری دنیا میں ہونے والے تشدد کا صرف دو فیصد ہے۔ باقی جو لوگ دنگوں میں اور عام حالات میں لوگوں کو مارتے ہیں وہ کیا اپسراؤں کے چکر میں ایسا کرتے ہیں، انھیں بھی دہشت گرد قرار دیجیے۔ مسلمان تو کھلے عام کہتے ہیں داعش، القاعدہ اور دوسرے گروپ واقعی دہشت گرد ہیں۔ لیکن جب جنونی گروہ مسلمانوں کو لِنچ کرتے ہیں تو انھیں کوئی دہشت گرد نہیں کہتا۔‘

کشمیر میں نیشنل کانفرنس کی ترجمان سارہ حیات شاہ نے ایک بیان میں کہا کہ ’ایسی فلموں کا مقصد جمہوری اور سیکولر ملک میں مسلمانوں کو دہشت اور تخریب کاری کی علامت کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے۔ اصل میں یہ ایک فرقہ وارانہ ایجنڈا ہے۔‘

جموں کشمیر کے مفتی اعظم مفتی ناصرالاسلام نے کہا ہے کہ وہ سبھی مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کا اجلاس طلب کرکے یہ معاملہ حکومت ہند کے ساتھ اُٹھائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہم نہیں چاہتے کہ یہ تنازع مزید پھیلے۔ اس فلم کے پروڈیوسرز کو سمجھنا چاہیے کہ انڈیا میں مسلمان دوسرا سب سے بڑا مذہبی گروہ ہے اور مسلمان اس ملک میں عزت، وقار اور امن کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں اور انھیں یہ حق دیا جانا چاہیے۔‘

پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ترجمان سُہیل بخاری نے کہا کہ ’ایسی فلموں کا سلسلہ چل پڑا ہے جو نہ صرف فرقہ واریت کو فروغ دیتی ہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلا کر ایک خطرناک نہج کو جنم دے رہی ہیں۔‘

وادی میں بی جے پی کی کلیدی رہنما اور جموں کشمیر وقف بورڈ کی سربراہ درخشاں اندرابی نے اپنے محتاط ردعمل میں کہا کہ فلمیں فِکشن (خیالی) ہوتی ہیں اور ان کا مقصد پیسہ کمانا ہوتا ہے۔ ’زندگی فقط فلموں اور کہانی لکھنے والوں سے متعلق نہیں۔ فلم سازوں کا کام ہے کہ فلمیں بنائیں اور پیسہ کمائیں، لیکن کبھی کبھی فلموں کو زیادہ مقبول بنانے کے لیے ایسی طرز پر فلمیں بناتے ہیں۔‘

فلم سازی کا نیا رجحان

گذشتہ برس مارچ میں بالی وڈ فلم ساز وِویک اگنی ہوتری کی فلم ’کشمیر فائلز‘ ریلیز ہوئی تو پورے ملک میں ہنگامہ برپا ہو گیا تھا۔یہ فلم 1990 میں کشمیر میں مسلح شورش شروع ہوتے ہی کشمیری بولنے والے کشمیری ہندؤں (پنڈت) کے وادی چھوڑ کر جانے کے تاریخی واقعات سے متعلق تھی۔ لیکن ناقدین کا کہنا تھا کہ اس میں واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے ۔ فلم پر تنازع چھِڑنے کے بعد اگنی ہوتری کو حکومت ہند نے سکیورٹی فراہم کی کیونکہ ان کا دعویٰ تھا کہ انھیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔

وزیراعظم نریندر مودی نے فلم کی تعریف کی تھی اور بی جے پی کی حکومت والی کئی ریاستوں میں اس فلم کی نمائش کو ٹیکس فری کر دیا گیا۔ تاہم کئی مقامات پر فلم کی نمائش کے بعد سینما گھروں کے باہر مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز ریلیاں ہوئیں اور بعض جگہوں پر مسلمانوں پر حملوں کے واقعات بھی پیش آئے۔

اس سال کے آغاز میں فلم ساز سُدیپتو سین کی فلم ’دا کیرالہ سٹوری‘ ریلیز ہوئی تو اس پر انڈیا میں فرقہ وارانہ تناؤ پیدا ہو گیا۔ یہ فلم ایک ہندو لڑکی سے متعلق ہے، جسے تبدیلیِ مذہب کے بعد شام میں داعش کی صفوں میں بھیجا جاتا ہے۔ فلم میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کیرالہ میں 32 ہزار خواتین کو جبری طور پر مسلمان بنایا گیا اور داعش میں شامل ہونے پر مجبور کیا گیا۔ فلم کے پلاٹ اور اس میں کیے گئے دعوؤں کی وجہ سے بھی انڈیا کی مسلم آبادی اور انتہاپسند ہندؤں کے درمیان تناوٴ پیدا ہو گیا۔

انڈیا میں فلم سازی کے اس نئے رجحان سے متعلق معروف کشمیری اداکار اور فلم ساز مشتاق علی احمد خان کہتے ہیں کہ ’لوگوں کے درمیان دُوریاں پیدا کرنا اور نفرتیں بڑھانا تو سیاست کا کام ہے، آرٹ تو لوگوں کو جوڑتا ہے اور پیار بڑھاتا ہے۔ اگر آرٹ کی وجہ سے لوگوں میں دُوریاں ہو جائیں تو وہ ہرگز آرٹ نہیں ہے۔‘ مشتاق علی کا کہنا ہے کہ مخصوص سیاسی نظریات پر مبنی فلموں کا یہ نیا رجحان ’منفی اور غیرصحت مند‘ ہے۔

72 حُوریں فلم میں مرکزی کردار نبھانے والے کشمیری اداکار عامر بشیر نے فلم میں اپنے کردار سے متعلق کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ انھوں نے کہا، ’جی نہیں، شکریہ، میں ملک سے باہر سفر کر رہا ہوں۔‘

تاہم ’دا کیرالہ سٹوری‘ کے ہدایتکار سُدیپتو سین نے ’72 حُوریں‘ فلم کی یہ کہہ کر تعریف کی ہے کہ یہ ’صدیوں کے فریب اور دیومالائی تصور کو بے نقاب کر رہی ہے۔‘