اہم خبریں

’انڈیا سے شو کے لیے ایک ہزار سے زیادہ پیغامات ملے لیکن جا نہیں سکتا‘

’پچھلے تین مہینوں میں مجھے انڈیا سے ایک سے ڈیڑھ ہزار شو کرنے کے لیے پیغامات اور ای میلز آ چکی ہیں۔‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے گلوکار ذیشان علی نے گذشتہ چند ہی ماہ میں ایسی مقبولیت پائی ہے کہ ان کے پاس شو کرنے کی پیشکش کے انبار لگ چکے ہیں۔

لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ذیشان علی نئے گلوکار نہیں۔ ان کے مطابق انھوں نے باقاعدہ گلوکاری کی تربیت 16 سال قبل شروع کی۔ نیس کیفے بیسمنٹ میں نصرت فتح علی خان کی قوالی ’نئی تیرے جیا ہور دسدا‘ کا ری میک بھی ان کی پہچان بنا۔

اس کے باوجود ان کے ہی الفاظ میں ان کی اچانک مقبولیت، باالخصوص انڈیا میں، کی وجہ کیا ہے؟ یہ قصہ ان کی ہی زبانی سنتے ہیں۔

یہ 2019 کی بات ہے جب ذیشان علی ایک گانے کی ریکارڈنگ کی تیاری کر رہے تھے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’ہمارا ایک دوست جو ڈی او پی تھا، راستے میں تھا اور ہم پورا سیٹ اپ لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ کیمرہ لگا ہوا تھا، مائیک میرے سامنے تھا، آرٹسٹ کو ایسا ماحول مل جائے تو فورا موڈ بن جاتا ہے۔ تو ہم گانے لگے۔‘

ذیشان نے گانا شروع کیا تو ان کے دوستوں نے ریکارڈنگ شروع کر دی۔ اس وقت انھوں نے ایک غزل کے چند اشعار گائے ’سادگی تو ہماری ذرا دیکھیے۔‘

’اس وقت مجھے دو شعر زبانی یاد تھے۔ میں نے وہ گا دیے۔ اسی طرح گلوں میں رنگ بھرے اور 18-19 ٹریک بیٹھے بیٹھے گا دیے۔‘

اس ریکارڈنگ کو ذیشان علی نے یوٹیوب کے ذریعے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا لیکن ابتدائی نتائج ان کی امید کے مطابق نہیں نکلے۔

’میں نے گھر آ کر ایک ہفتے میں ہی 19 ویڈیوز یوٹیوب پر اپ لوڈ کر دیں حالانکہ یہ طریقہ غلط ہے۔ چار پانچ چھ ہزار لوگوں نے دیکھ لیا۔ میں پھر اپنا کام کرنے لگ گیا۔‘

ذیشان علی بتاتے ہیں کہ کچھ عرصہ قبل ’سادگی تو ہماری ذرا دیکھیے‘ کا گیت سوشل میڈیا پر مقبول ہونا شروع ہو گیا لیکن اس مقبولیت کی وجہ سے وہ اب تک لاعلم ہیں۔

’چھ سات مہینے پہلے، ایسا پتہ نہیں کیا ہوا کہ سادگی تو ہماری ذرا دیکھیے، پر بہت زیادہ ریلز بننے لگیں انسٹا گرام پر۔ کسی نے اپنی تصویر کھینچ کر پیچھے آڈیو لگایا، تو مجھے بہت اچھا لگا کہ لوگ کنیکٹ کر رہے ہیں۔‘

اہم بات یہ ہے کہ ان کی مقبولیت انڈیا میں بہت حد تک بڑھی۔

اس کا ثبوت وہ اس انداز میں دیتے ہیں کہ ’میں نے تین چار مہینوں میں 40-50 شو کیے ہیں دبئی میں۔ ان میں سے دو تین تھے جو پاکستانی لوگوں نے آرگنائز کیے ہوئے تھے۔ سارے انڈین لوگ تھے جو آرگنائز کر رہے تھے۔‘

ان کو انڈیا سے بھی شو کرنے کی پیشکش آ چکی ہیں لیکن فی الحال ان کے راستے میں ایک رکاوٹ موجود ہے۔

’وہاں کوئی ایسا قانون ہے کہ پاکستان سے کوئی آرٹسٹ انڈیا ٹریول نہیں کر سکتا۔‘

یہ قانون ان کی ایک بڑی خواہش کے راستے کی رکاوٹ بھی بنا ہوا ہے۔

ذیشان کہتے ہیں کہ ’میری زندگی کی بڑی خواہش ہے کہ میں دلی میں ریختہ فیسٹیول میں پرفارم کروں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’مجھے سننے والوں میں بڑی تعداد 24 سے 36 سال کے لوگوں کی ہے۔ علاقے کی بات کریں تو 85 فیصد لوگ انڈیا سے ہیں، باقی پاکستانی ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کیسے، کیوں لیکن ایسا ہی ہے۔‘

اپنے سفر کے بارے میں ذیشان نے بتایا کہ ’میں نے 16 سال پہلے گانا سیکھنا شروع کیا تھا۔ لاہور میں میوزک اکیڈمی کا کلچر ہے۔‘

لیکن یہ سفر آسان نہیں تھا۔

’پتہ چلا ہر جگہ مختلف گھرانے ہیں۔ کلاسیکل والوں کی ایک الگ ہی دنیا ہے۔ سب سے پہلا رئیلٹی چیک یہ ملا کہ جو کلاسیکل گھرانے ہیں، وہ کسی عام بچے کو مانتے ہی نہیں ہیں۔ یعنی قبول ہی نہیں کرتے۔‘

ان کا ماننا ہے کہ پاکستان میں کلاسیکل موسیقی کے زوال کی بھی یہی وجہ بنی۔

’آخر اتنے اچھے میوزک، کلاسیکل موسیقی، کے زوال کی وجوہات کیا ہیں؟ کوئی کسی کو وہ علم دینے کو تیار نہیں ہے۔ اسی لیے یہ غائب ہو گیا۔ اس میں بھی ان کا ہی کردار تھا جو وہ میوزک کر رہے تھے۔‘

’ایک ایسی فضا تھی جس میں ہر موسیقار دوسرے سے جیتنا چاہہتا تھا۔ وہ ساری زندگی یہی لڑائی لڑتے رہ گئے۔‘

لیکن خود وہ بھی کلاسیکل موسیقی کی وجہ سے ہی مقبول ہوئے تو اس کی کیا وجہ ہے؟

ذیشان علی اس کے لیے سوشل میڈیا کو کریڈٹ دیتے ہیں۔

’میں اگر کسی چیز کو کریڈٹ دوں تو وہ میں سوشل میڈیا کو دوں گا۔ میری محنت تو ایک طرف رہ گئی، لیکن کردار تو سوشل میڈیا نے ادا کیا لوگوں تک بات پہنچانے تک ورنہ میں جو بھی کر رہا تھا، اچھا گا رہا تھا یا برا گا رہا تھا، میں اپنے گھر پر ہی گا رہا تھا۔‘

ذیشان کہتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے سب کو ایک جیسا موقع فراہم کر دیا ہے۔

’پہلے صرف ایک پی ٹی وی ہوتا تھا، آپ کو دروازے کے باہر کھڑے رہنا پڑتا تھا، چانس کے لیے کوئی پرچی، کوئی سفارش کا انتظام کرنا پڑتا تھا۔ اب سب کے پاس ایک جیسا موقع ہے ڈیجیٹل کی صورت میں۔‘

’آپ اپنا کام لوگوں تک پہنچائیں، اگر اچھا ہے تو اسے پر لگ جائیں گے۔‘

ذیشان کا کہنا ہے کہ ’جب آپ اپنی مہارت کو اس حد تک لے جائیں کہ وہ ایک سچ بن جائے، ایک حقیقت بن جائے تو آپ کے لیے مواقع خود پیدا ہو جاتے ہیں۔‘

ان کا ماننا ہے کہ سوشل میڈیا صرف صارفین تک پہنچنے کا ہی نہیں بلکہ پیسہ کمانے کا بھی ذریعہ ہے جسے اپنانے سے آرٹسٹ کو کترانا نہیں چاہیے۔

’جب خواتین کھانے پکانے کی ویڈیو سے پیسے کما سکتی ہیں تو آرٹ کیوں نہیں؟ اگر ایک آرٹسٹ ایک گانے پر دس لاکھ لگاتا ہے اور اسے ایک ملین لوگ دیکھ لیتے ہیں یوٹیوب پر تو چار پانچ لاکھ روپے تو واپس آ ہی جائیں گے، اور اگر اسے کچھ شو بھی مل جاتے ہیں تو وہ اپنے پیسے تو ریکور کر ہی لے گا بلکہ منافع کما لے گا۔‘