انڈین سینیما کی مختلف اصناف کی طرح یہاں مختلف مزاج کے فلمساز رہے ہیں۔ ان میں سے ایک انوراگ کشیپ ہیں جو حقیقی زندگی میں خون دیکھ کر بیہوش ہو سکتے ہیں اور کسی کے جنازے میں جانے کا سوچ کر ہی ان کے ہاتھ پاؤں کانپ جاتے ہیں۔
تاہم اگر آپ انوراگ کی فلموں سے واقف ہیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ پردے پر ایسے مناظر دکھانا ان کے لیے کوئی بڑی بات نہیں۔
انوراگ کی فلموں میں زیادہ تر سماجی مسائل کو اٹھایا جاتا ہے، یعنی منشیات، سگریٹ نوشی، بچوں کے ساتھ بدسلوکی، ڈپریشن اور تناؤ جیسے مسائل۔
مگر بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ انوراگ خود بھی ان مسائل سے گزرے ہیں اور اسی لیے وہ ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جہاں نفرت اور تشدد کا عنصر شامل ہو۔
انڈین سینیما میں اپنی لیے منفرد مقام پیدا کرنے والے انوراگ کے فلم کیریئر کو 30 سال مکمل ہوچکے ہیں۔
ایک انٹرویو میں انوراگ کشیپ نے بتایا تھا کہ وہ ممبئی آنے کے بعد سڑک کنارے بھی سوتے تھے۔ ’کبھی کبھی سو پاتے تھے، کبھی ڈنڈا مار کر اٹھا دیا جاتا تھا۔۔۔ فٹ پاتھ پر لوگ لائن سے سوتے تھے اور سونے کے لیے چھ روپے دینے پڑتے تھے۔‘
وہ ٹرین سے ممبئی سیدھا پرتھوی تھیٹر پہنچنے تو انھیں کہا گیا ’یہ ہوٹل نہیں تھیٹر ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جب وہ ممبئی آئے تو ان کی جیب میں صرف پانچ ہزار روپے تھے۔
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’کوئی بندہ وہاں (فٹ پاتھ کا) انچارچ تھا اسے چھ روپے دینے پڑتے تھے تاکہ کوئی صبح چھ بجے تک اٹھائے نہ۔‘
وہ اپنا سوٹ کیس ساتھ رکھتے تھے جس میں اکثر کتابیں ہوتی تھیں۔ ’میں واحد شخص تھا جو پھریتھوی تھیٹر کھلنے سے پہلے وہاں کا باتھ روم استعمال کر سکتا تھا۔‘
انوراگ کا شمار بالی وڈ کے ان ہدایتکاروں میں ہوتا ہے جنھوں نے ایک الگ راستہ اختیار کر کے اپنی ایک خاص پہچان بنائی۔ ان کی فلمیں بھلے ہی ہمیشہ تنازعات میں گھری رہیں لیکن یہی ان کی خاصیت رہی ہے کہ آپ انھیں نظر انداز نہیں کر سکتے۔
یقیناً انھوں نے فلمسازی کی ایک مختلف قسم اور نئی تعریف بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بھی ان کا خاصہ رہا ہے کہ انھوں نے نئے فنکاروں کو بھرپور مواقع فراہم کیے ہیں۔
انھوں نے نوازالدین صدیقی کو بڑا بریک دیا۔ نواز کے علاوہ وکی کوشل کو بھی انوراگ نے ہی موقع دیا جو آج نوجوان فنکاروں میں بہت باصلاحیت مانے جاتے ہیں۔ انوراگ نے وکی کو اسسٹنٹ کے طور پر اپنی فلم ’گینگز آف وسے پور‘ میں شامل ہونے کا موقع دیا تھا۔
ایک ٹیلی ویژن سیریل لکھنے کے بعد کشیپ کو رام گوپال ورما کے کرائم ڈرامہ ’ستیہ‘ (1998) میں شریک مصنف کے طور پر بڑا چانس ملا اور انھوں نے ’پانچ‘ کے ساتھ ہدایتکاری کی شروعات کی جو سنسرشپ کے مسائل کی وجہ سے کبھی تھیٹر میں ریلیز نہیں ہوئی۔
انھوں نے ’بلیک فرائیڈے‘ (2004) میں ہدایتکاری کی۔ یہ فلم حسین زیدی کی 1993 کے بمبئی دھماکوں کے بارے میں کتاب پر مبنی تھی۔ کیس کا فیصلہ آنے تک یہ فلم دو سال تک روکی گئی تھی۔
انوراگ کشیپ کی ’نو سموکنگ‘ (2007) نے منفی تبصروں کے ساتھ باکس آفس پر خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ ان کی ’دیو ڈی‘ (2009) دیو داس کی ایک جدید شکل تھی جسے کامیابی ملی۔
پھر سماجی و سیاسی ڈرامہ ’گلال‘ (2009)، تھریلر ’دیٹ گرل ان یلو بوٹس‘ (2011) اور ’گینگز آف وسے پور‘ (2012) سے ان کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا۔
انوراگ کشیپ نے بعد میں تنقیدی طور پر سراہی جانے والی ’دی لنچ باکس‘ اور ’شاہد‘ (دونوں 2013) کو مشترکہ طور پر پروڈیوس کیا جو پہلے انگریزی زبان میں بہترین فلم کے لیے بافٹا ایوارڈ نامزدگی حاصل نہیں کر پائے تھے۔ ان کی اگلی فلمیں ’انتھولوجی‘، ’بامبے ٹاکیز‘ (2013) اور ’اگلی‘ (2014) تھیں۔
2016 میں کشیپ نے ’رمن راگھو 2.0‘ کی ہدایت کاری کی۔ یہ فلم سیریل کلر رمن راگھو سے متاثر تھی۔ ان کی اگلی فلم سپورٹس ڈرامہ ’مکاباز‘ تھی جو 2018 میں ریلیز ہوئی۔
اسی سال انھوں نے انڈیا کی پہلی نیٹ فلکس سیریز کرائم تھریلر ’سیکرڈ گیمز‘ کی مشترکہ ہدایت کاری کی جو وکرم چندر کے اسی نام کے ناول اور رومانوی ڈرامہ ’من مرضیاں‘ پر مبنی تھی۔ وہ ایک فلم پروڈکشن کمپنی گڈ بیڈ فلمز کے شریک بانی بھی ہیں۔
آپ سب کو انوراگ کی رنبیر کپور اور انوشکا شرما کے ساتھ فلم ’بامبے ٹاکیز‘ کی تاریخ ضرور معلوم ہوگی۔ انوراگ کو اس فلم کے فلاپ ہونے پر اتنا صدمہ لگا کہ انھوں نے فلمی دنیا کو الوداع کہنے کی دھمکی بھی دی۔
انوراگ ہمیشہ سنسر بورڈ کے اقدامات کی مذمت کرتے آئے ہیں۔ فلم ’اُڑتا پنجاب‘ (2016) کی ریلیز کے موقع پر سنسر بورڈ نے اس پر کئی اعتراض اٹھائے تھے اور اس پر تنازع بھی ہوا تھا۔
انوراگ کا تنازعات سے گہرا تعلق ہے۔ چاہے بات ان کے متنازع بیانات، سوشل میڈیا پر پوسٹس، خاندانی تعلقات یا فلمی برادری میں شراکت داروں کے ساتھ لڑائیوں کی ہو۔
چند سال قبل ایک انٹرویو کے دوران انھوں نے انکشاف کیا تھا کہ وہ بچپن میں جنسی ہراسانی کا شکار ہوئے۔ انوراگ کے مطابق ’میرے ساتھ تقریباً 11 سال تک جنسی ہراسانی ہوتی رہی۔ تاہم اب میں نے اس شخص کو معاف کر دیا ہے۔‘
’جس وقت انھوں نے میرے ساتھ ہراسانی کی تو ان کی عمر 22 سال تھی۔ جب میں ان سے کئی سال بعد ملا تو انھوں نے اس کا پچھتاوا بھی کیا۔‘
انھوں نے کہا کہ ’میرے لیے اسے بھولنا آسان نہیں تھا۔ میں اسی تناؤ، مایوسی اور غصے میں ممبئی آیا تھا۔ ابتدائی برسوں میں یہاں بھی محنت کی لیکن کالکی نے ڈپریشن سے باہر آنے میں میری بہت مدد کی۔‘
انوراگ نے پہلی شادی 1997 میں آرتی بجاج سے کی لیکن دونوں نے 2009 میں طلاق لے لی۔ دونوں کی ایک بیٹی عالیہ ہے جن کی عمر 19 سال ہے۔ بعد میں انوراگ نے اداکارہ کالکی سے 2011 میں شادی کر لی۔ لیکن یہ شادی بھی زیادہ دیر نہ چل سکی اور 2015 میں دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔
اداکار منوج باجپائی، جنھوں نے انوراگ کی کئی فلموں میں کام کیا ہے، کہتے ہیں کہ ’ایک بہت ہی غیر منظم شخص سے ایک منظم شخص تک، ایک بے چین شخص سے ایک مستحکم شخص تک، غصے سے پرسکون شخص تک، میں اس سفر کا گواہ تب سے رہا ہوں جب وہ صرف 22 سال کے تھے۔‘
’ان کا سفر مشکل لیکن شاندار ہے۔ وہ اس بات سے کبھی نہیں ڈرتے۔ انوراگ کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کا حل بھی وہ خود تلاش کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’آج وہ ایک اہم موڑ پر ہیں۔ انھوں نے اپنے سینیما کا سکہ جمایا ہے۔ وہ نئے فلم سازوں کے لیے تحریک کا ذریعہ ہیں۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کا یہ سفر دیکھا ہے۔
’میں دل کی گہرائیوں سے ان کا احترام کرتا ہوں۔‘
بلیک فرائیڈے میں ان کے ساتھ کام کرنے والے پوون ملہوترا کہتے ہیں کہ ’انھوں نے فلموں میں اپنے لیے ایک جگہ بنائی ہے اور ہمیشہ روایت سے ہٹ کر کام کیا ہے۔
’وہ ہندی فلموں کی بیرونی ممالک مارکیٹنگ کرنے والے پہلے آدمی تھے، جو کہ این ایف ڈی سی (انڈیا میں نیشنل فلم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن) کبھی نہ کر سکا۔‘
انوراگ کی فلم ’گینگز آف وسے پور‘ سے سٹار بننے والے نوازالدین صدیقی کا کہنا ہے کہ انوراگ نے اپنی فلموں میں اپنے اردگرد کے کرداروں کو جس طرح جگہ دی، ’یہ کوئی نہیں کرسکا ہے۔‘
’ان کا اپنا انداز ہے جو منفرد رہا ہے اور آج بھی زندہ ہے۔‘