وقت کی پیمائش کے ساتھ انسانیت کا رشتہ پہلے تحریری لفظ کے سامنے آنے سے بھی پہلے شروع ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے لیے وقت کی پیمائش کی کئی اکائیوں کی اصل تحقیق کرنا مشکل ہے۔
چونکہ فلکیاتی مظاہر سے اخذ کردہ اکائیوں میں سے کچھ کی وضاحت کرنا کافی آسان لگتا ہے اس لیے یہ فرض کیا جا سکتا ہے کہ انھیں دنیا بھر کی بہت سی مختلف ثقافتوں نے آزادانہ طور پر استعمال کیا ہے۔
یہ ایک دن یا ایک سال کے دورانیے کی پیمائش کے لیے زمین کے حوالے سے سورج کی ظاہری حرکات کا معاملہ ہے۔ جہاں تک مہینوں کی پیمائش کا تعلق ہے، ایسا چاند کے مراحل کے مطابق کیا جاتا ہے۔
تاہم وقت کی کچھ پیمائشیں ہیں جو واضح طور پر کسی فلکیاتی رجحان سے تعلق نہیں رکھتیں، اور یہ دو مثالیں ہفتہ اور گھنٹہ ہیں۔
مصری ہیروگلیفک قدیم ترین تحریری روایات میں سے ایک ہے۔ اس سے ہمیں گھڑی کی ابتدا کے بارے میں نئی معلومات ملتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی ابتدا شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے علاقے میں ہوئی اور جدید دور میں پوری دنیا میں پھیلنے سے پہلے اسے یورپ میں اپنایا گیا تھا۔
قدیم مصر میں وقت
اہرامِ مصر میں 2400 قبل مسیح سے پہلے لکھی گئی تحریریں قدیم مصر کی ابتدائی معلوم تحریریں ہیں۔ ان میں ایک لفظ ’wnwt‘ ہے جس کا تلفظ تقریباً wenut ہے، اور اس میں ستارے سے منسلک ایک ہائروگلیف ہے۔ یہ لگتا ہے کہ ’wnwt‘ کا تعلق رات سے ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ لفظ ’wnwt‘ کا ترجمہ ’گھنٹہ‘ کیوں کیا گیا، آپ کو اسیوت شہر کا سفر کرنا ہو گا۔ وہاں دو ہزار قبل مسیح کے تابوتوں کے مستطیل لکڑی کے ڈھکنوں کے اندرونی حصہ کو کبھی کبھی فلکیاتی ٹیبل یا ستاروں کی سمت کے لحاظ سے سجایا جاتا تھا۔
اس ٹیبل میں سال کے 10 دن کے ادوار کی نمائندگی کرنے والے کالم تھے۔ مصری شہری کیلنڈر 12 مہینے کا تھا، جن میں سے ہر ایک میں تین 10 دن کا ’ہفتہ‘ ہوتا تھا، اور اس کے بعد پانچ دن کے تہوار ہوتے تھے۔
ہر کالم میں 12 ستاروں کے نام درج ہیں، 12 قطاریں بنتی ہیں۔ پورا ٹیبل ستاروں کے جدید نقشے کی طرح پورے سال کے دوران آسمان میں ہونے والی تبدیلیوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
وہ 12 ستارے رات کے 12 عارضی علاقوں میں پہلی منظم تقسیم ہیں، ہر ایک ستارے کے زیر انتظام ہے۔ تاہم لفظ wnwt کبھی بھی ان تابوت ستاروں کی ٹیبلیٹس سے منسلک نہیں ہوتا۔
فلکیاتی ہدایات
ابیڈوس کے اوسیرئین نامی ایک مندر میں بہت زیادہ فلکیاتی معلومات لکھی ہیں، جن میں سن ڈائیل بنانے کے بارے میں ہدایات اور ستاروں کی حرکت کو بیان کرنے والا ٹیکسٹ بھی شامل ہے۔ اس میں ایک تابوت نما ستارے کا ٹیبل بھی ہے جس میں تمام 12 قطاروں پر منفرد طور پر لفظ wnwt لکھا ہوا ہے۔
نیو کنگڈم میں رات کے 12 wnwt اور دن کے 12 wnwt تھے، دونوں واضح طور پر وقت کی پیمائش کرتے تھے۔ ان میں وقت کا تصور تقریباً اپنی جدید شکل میں ہے، اگر یہ دو چیزیں نہ ہوتیں۔
اگرچہ دن بھی 12 گھنٹوں کا ہوتا ہے اور رات بھی 12 گھنٹوں کی، لیکن ہمیشہ انھیں الگ الگ کہا جاتا ہے، کبھی بھی اسے 24 گھنٹے کے دن کے طور پر نہیں لکھا یا پکارا جاتا۔
دن کو سورج کی وجہ سے پڑنے والے سائیوں کی وجہ سے اور ان کا استعمال کر کے ماپا جاتا تھا، جبکہ رات کے اوقات کو بنیادی طور پر ستاروں سے ماپا جاتا تھا۔ یہ صرف اس وقت کیا جا سکتا تھا جب سورج اور ستارے بالترتیب نظر آتے تھے، اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے ارد گرد دو ادوار ہوتے تھے جن میں کوئی گھنٹے نہیں ہوتے تھے۔
دوسرا، نیو کنگڈم کا wnwt اور ہمارا جدید وقت لمبائی میں مختلف ہے۔ سن ڈائیلز اور واٹر ڈائلز بہت واضح طور پر دکھاتے ہیں کہ wnwt کی طوالت پورے سال مختلف ہوتی رہتی ہے۔ موسم سرما میں طویل راتیں، اور گرمیوں میں طویل دن۔
اس سوال کا جواب دینے کے لیے کہ نمبر 12 کہاں سے آیا، ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ہر 10 دن کی مدت میں 12 ستاروں کا انتخاب کیوں کیا گیا۔
بلاشبہ یہ انتخاب ہی اس وقت کی اصل ابتدا ہے۔ کیا 12 صرف ایک آسان منتخب کیا جانے والا نمبر تھا؟ شاید، لیکن ایک اور امکان بھی ہے۔
وقت بتانے والے ستارے
قدیم مصری روشن ستارے ’سیریس‘ کو بطور ایک ماڈل استعمال کرتے تھے اور پھر دوسرے ستاروں کا انتخاب سیریس سے ان ستاروں کی مماثلت کی بنیاد پر کرتے تھے۔
اہم نکتہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ستارے جن کو انھوں نے ٹائمر کے طور پر استعمال کیا وہ سال میں 70 دنوں کے لیے غائب ہو گئے، بالکل سیریس کی طرح، حالانکہ دوسرے ستارے بھی اتنے روشن نہیں تھے۔
اوسیریئون ستارے کے متعلق لکھے گئے ٹیکسٹ کے مطابق، ہر 10 دن بعد ایک سیریس نما ستارہ غائب ہو جاتا ہے اور دوسرا دوبارہ نمودار ہوتا ہے اور ایسا پورا سال ہوتا رہتا۔
سال کے وقت کے مطابق، ان میں سے 10 سے 14 ستارے ہر رات نظر آتے ہیں۔ سال بھر میں 10 دن کے وقفوں پر ان کو ریکارڈ کرنے کا نتیجہ تابوت ستارے کے ٹیبل کی طرح ہوتا ہے۔
تقریباً 2000 قبل مسیح کے دوران ان کا ظہور زیادہ ہونے لگا اور 12 قطاروں والا ٹیبل بنایا گیا، جس سے تابوت کے ٹیبل کا جنم ہوا، جسے ہم مصر اور دیگر جگہوں کے عجائب گھروں میں دیکھ سکتے ہیں۔
لہٰذا، یہ ممکن ہے کہ رات کے گھنٹوں کی تعداد کے طور پر 12 کا انتخاب اور آخر میں دوپہر سے اگلے دوپہر تک گھنٹوں کی کل تعداد کے طور پر 24 کا انتخاب 10 دن کے ہفتے کے انتخاب سے جڑا ہو۔
اس لیے، ہمارے جدید وقت کا آغاز ان فیصلوں کے سنگم سے ہوا جو 4000 سال سے زیادہ پہلے لیے گئے تھے۔
*رابرٹ کاککرافٹ فزکس اور فلکیات کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں اور سارہ سائمنز انٹرڈسپلنری سائنس کی پروفیسر ہیں، دونوں کینیڈا کی میک ماسٹر یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔