اہم خبریں

اسلام آباد: جج کے گھر میں کمسن ملازمہ پر مبینہ تشدد کا مقدمہ درج، ’بچی کے سر پر زخم تھے جن میں کیڑے پڑ چکے تھے‘

انتباہ: اس تحریر میں درج تفصیلات بعض قارئین کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کی پولیس نے 14 سالہ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کی ایف آئی آر درج کر لی ہے۔

بچی کے والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ متاثرہ بچی اسلام آباد میں تعینات ایک سول جج کے گھر میں گذشتہ 6 ماہ سے بطور گھریلو ملازمہ کام کر رہی تھیں۔

متاثرہ بچی کا تعلق پنجاب کے شہر سرگودھا سے ہے۔ ایف آئی آر میں والد کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ جب وہ گذشتہ روز (پیر) اپنی بیٹی سے ملاقات کرنے اپنی اہلیہ سمیت اسلام آباد آئے تو جج کے گھر میں وہ انھیں زخمی حالت میں ملی جبکہ بچی لگاتار رو رہی تھی۔

والد کے مطابق بچی کی حالت کو دیکھتے ہوئے اسے فوراً طبی امداد کی غرض سے سرگودہا لے گئے جہاں کے سرکاری ہسپتال نے انھیں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعد لاہور کے جنرل ہسپتال ریفر کر دیا کیونکہ بچی کے زخم خراب ہو چکے تھے۔

درج مقدمے کے متن کے مطابق بچی کا دعویٰ ہے کہ اس پر سول جج کی اہلیہ کی جانب بدترین تشدد کیا جاتا رہا ہے۔

سرگودھا کے ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) فیصل کامران نے بتایا ہے کہ ڈی ایچ کیو ہسپتال سرگودھا کی ابتدائی میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچی کے سر سمیت جسم پر 15 جگہ پر زخموں کے نشانات ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’بچی کے سر پر متعدد جگہ گہرے زخم ہیں اور بروقت علاج نہ ہونے کے باعث یہ زخم خراب ہو چکے ہیں اور ان میں کیڑے پڑ گئے ہیں۔‘

میڈیکل رپورٹ کے مطابق ’15 ظاہری چوٹوں کے علاوہ بچی کے اندرونی اعضا بھی متاثر ہیں۔‘

اسلام آباد پولیس کے سربراہ ڈاکٹر اکبر ناصر کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پولیس ملزمہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کرے گی کیونکہ جن دفعات کے تحت مقدمہ درج ہوا ہے وہ ناقابل ضمانت دفعات ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس مقدمے کی تفتیش کے دوران سول جج کو بھی شامل تفتیش کیا جائے گا کیونکہ گھریلو ملازمہ پر تشدد اُن کے گھر پر ہوا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تفتیش میں تعاون نہ کرنے کی صورت میں قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔‘

واضح رہے کہ اس سے قبل سنہ 2017 میں اسلام آباد کے ایک ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف کمسن ملازمہ پر گھریلو تشدد کرنے پر مقدمہ درج کیا گیا تھا اور جرم ثابت ہونے پر انھیں تین سال قید کی سزا سنائی گئی تھی اور اس سزا کو سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا تھا۔

بی بی سی سے کے ساتھ بچی کی والدہ کا ایک کلپ شیئر کیا گیا ہے جس میں وہ انصاف کی اپیل کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں کہ ’ظلم آپ سب کے سامنے ہے، مجھے انصاف چاہیے۔‘

خیال رہے کہ گذشتہ برس لاہور میں ایک کمسن گھریلو ملازم کامران کو مبینہ طور پر ’فریج سے کھانا چوری کرنے‘ کے الزام میں قتل کر دیا گیا تھا۔

’جج کی اہلیہ روزانہ اس پر تشدد کرتی تھی‘

اسلام آباد میں درج ایف آئی آر کے متن کے مطابق بچی کی والد کی جانب سے مذکورہ سول جج کی اہلیہ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ انھیں ان کی بیٹی نے بتایا ہے کہ ’وہ (جج کی اہلیہ) روزانہ ان پر ڈنڈوں اور چمچوں سے تشدد کرتی تھیں اور کمرے میں بھوکا پیاسا پھینک دیتی تھیں۔‘

مقدمے کے مطابق بچی نے یہ بھی بتایا ہے کہ انھیں سول جج کے گھر ملازمت کے بعد سے زیادہ تر عرصہ ایک کمرے میں بند کر کے رکھا گیا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق بچی کے والد نے پولیس کو بتایا ہے کہ انھوں نے اپنی بچی کو ایک جاننے والے کی وساطت سے اسلام آباد کے جج کے گھر کام کے لیے رکھوایا تھا۔

ایف آئی آر کے مطابق جب بچی کے والد اور والدہ کئی ماہ صرف فون پر بات کرنے کے بعد گذشتہ روز بچی سے ملنے جج کے گھر پہنچے تو انھیں ایک کمرے سے اس کے رونے کی آواز آئی۔

’جب ہم نے اس کمرے کا رخ کیا تو وہاں سے بچی زخمی حالت میں موجود تھی اور زارو قطار رو رہی تھی۔‘

ایف آئی آر میں بچی کے جسم پر موجود زخموں کی تفصیلات بھی درج ہیں۔ والد کی مدعیت میں درج ایف آئی آر میں بتایا گیا ہے کہ ’بچی کے سر پر جگہ جگہ زخم تھے جن میں چھوٹے کیڑے پڑ چکے تھے۔ ان کا بازو، دونوں ٹانگیں اور ایک دانت بھی ٹوٹا ہوا تھا۔

ایف آئی آر کے متن کے مطابق ’بچی کے جسم کے دیگر حصوں پر زخموں کے علاوہ ان کے گلے پر بھی نشانات تھےجیسے کسی نے گلا گھونٹنے کی کوشش کی ہو۔‘

بچوں پر تشدد کے حوالے سے پاکستان کے قوانین کیا کہتے ہیں؟

خیال رہے کہ اس معاملے میں ایف آئی آر تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 506 اور 342 کے تحت درج کی گئی ہے۔

تعزیرات پاکستان کی دفعہ 342 حبسِ بے جا میں رکھنے کے حوالے سے ہے جس کی سزا ایک سال تک قید اور تین ہزار روپے جرمانہ ہے جبکہ دفعہ 506 کے تحت جان سے مارنے کی دھمکی دینے کے حوالے سے ہے جس میں دو سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔

تاہم بچوں پر تشدد کے حوالے سے قوانین بنانے میں معاونت کرنے والے وکیل شرافت علی کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 328 (اے) موجود جس کے تحت طیبہ تشدد کیس میں جج اور ان کی اہلیہ کو سزا دی گئی تھی۔

اس قانون کے تحت بچوں کے ساتھ تشدد، برا سلوک، نظرانداز کرنے یا انھیں جسمانی یا ذہنی طور پر نقصان پہنچایا جائے تو ایسی صورت میں کم سے کم ایک سال جبکہ زیادہ سے تین سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے جبکہ اس ضمن میں پچیس سے پچاس ہزار جرمانہ بھی کیا جا سکتا ہے۔

وکیل شرافت علی کا کہنا ہے کہ دفعہ 336 اے اور بی اس وقت لگائی جاتی ہے جب متاثرہ بچے کا میڈیکل کر لیا جاتا ہے۔

ان کے مطابق سیکشن 336 اے میں بچوں کو کسی ایسی چیز سے ضرر پہنچانے جیسے اقدام سے نقصان پہنچانا شامل ہوتا ہے جس سے ان کے جسم کے کسی عضو کو نقصان پہنچایا جائے۔ تعزیراتِ پاکستان کے سیکشن 336 اے میں ایسے مواد کی فہرست موجود ہیں جس کے ذریعے کسی بچے کے جسم کے عضو کو نقصان پہنچا کر اس کی ہیت بدل دی جائے۔

اسی طرح سیکشن 336 بی کے مطابق ایسی صورت میں ملزم کو عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے یا ایسی سزا جو 14 سال سے کم نہ ہو اور اس ضمن میں جرمانہ 10 لاکھ ہو۔

انھوں نے بتایا تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 337 میں بہت تفصیل سے درج ہے کہ کس قسم کے تشدد پر کتنی سزا دی جاتی ہے اور یہ بھی میڈیکل رپورٹ سامنے آنے کے بعد شامل کی جا سکتی ہے۔ اس بارے میں متاثرہ شخص کے سر پر لگنے والے زخموں کے حوالے سے خصوصاً سخت سزا کا ذکر ہے۔

وکیل شرافت علی آئی سی ٹی چائلڈ ایکٹ (جس کا اطلاق صرف دارالحکومت اسلام آباد میں ہوتا ہے) کے رولز بنانے والی کمیٹی کا حصہ رہے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’اس قانون کے رولز بنا دیے گئے اور اس حوالے سے ایک ادارہ یعنی آئی سی ٹی چائلڈ پروٹیکشن انسٹیٹیوٹ بھی قائم کر دیا گیا ہے اور چائلد پروٹیکشن افسر بھی کچھ جگہوں پر تعینات ہیں لیکن اس پر مختلف وجوہات کے باعث اس پر مکمل طور پر عمل درآمد نہیں ہو پا رہا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس قانون کے تحت ان افسران کو شہر میں گشت کرتے ہوئے ایسے بچوں کو اس ادارے تک پہنچانا شامل تھا تاکہ پھر ان پر مکمل چائلڈ پلان بنایا جائے۔ ابھی ایسے بچوں کو بس پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے اور پھر ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔‘

اسی طرح صوبہ پنجاب میں سنہ 2004 میں ’پنجاب ڈیسٹیچیوٹ اینڈ نِگلیکٹڈ چلڈرن ایکٹ‘ یعنی نظر انداز کیے گئے ہوئے بچوں کے لیے قانون منظور کیا گیا تھا۔

اسی قانون کے تحت کئی برس بعد بچوں کی نگہبانی کے مراکز یعنی چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر سینٹرز بھی قائم کیے گئے اور اس کے تحت تین برس قید اور 50 ہزار جرمانے کی سزا بھی بتائی گئی ہے تاہم اس پر عمل درآمد میں مشکلات پیش آتی رہی ہیں۔