اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصل مسجد کے سامنے خوانچہ فروش کو لائسنس کے بغیر ریڑھی لگانے پرتین ماہ قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا کے معاملے میں فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ریڑھی بان کو جلد رہا کرنے کا حکم دیا ہے۔
فرمان اللہ کو11 جولائی کو اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے کے مجسٹریٹ کی عدالت میں ناجائز تجاوزات کے معاملے میں مقدمہ چلا کر تین ماہ قید بامشقت اور پانچ لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی گئی تھی جس کے بعد انھیں اڈیالہ جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
ریڑھی بان کی گرفتاری اور سزا کی خبر سامنے آنے کے بعد پاکستان میں شدید عوامی ردعمل سامنے آیا تھا
بدھ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس طارق محمود جہانگیری نے اس معاملے کی سماعت کی۔
درخواست گزار کی جانب بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے موکل پر بنیادی الزام یہ لگایا گیا کہ انھوں نے بغیر لائسنس ریڑھی لگائی۔
عدالت کے استفسار پر درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اس معاملے میں صرف چالان جمع ہوا اور ان کے موکل پر کوئی فردِ جرم بھی عائد نہیں کی گئی ہے۔
بیرسٹر گیلانی کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کو مجرم قرار دیا گیا جبکہ انھوں نے مانا کہ وہ اپنا گھربار چلانے کے لیے فیصل مسجد کی پارکنگ میں ریڑھی لگاتے ہیں۔
جسٹس جہانگیری کا کہنا تھا کہ سزا معطل کرنے کے لیے فردِ جرم عائد ہونا ضروری ہے اور عدالت صرف اسی صورت میں اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری کر سکتی ہے۔
فرمان اللہ کے وکیل نے کہا کہ ان کے موکل کو ٹرائل کورٹ سے کوئی ریلیف نہیں ملا اور وہ تاحال جیل میں ہے۔
بعدازاں عدالت نے ریڑھی بان فرمان اللہ کو جلد رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیا۔
فرمان اللہ پچھلے 30 سال سے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں فیصل مسجد کے سامنے قلفی کی ریڑھی لگا رہے ہیں۔
یہی ریڑھی سردیوں میں مکئی کے دانوں کی ریڑھی میں تبدیل ہو جاتی ہے جس سے وہ اپنے پانچ بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔
ان کے پانچ بچوں میں سے چار جسمانی طور پر معذور ہیں اور ان کے علاج کا خرچہ بھی اسی کمائی سے نکلتا ہے جو ماہانہ تقریبا آٹھ ہزار روپے بنتے ہیں۔
اسلام آباد کی لہتراڑ روڈ پر ایک کچے مکان کے رہائشی فرمان اللہ اب اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔
وفاقی دارالحکومت کے ادارے سی ڈے اے کے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے اہلکاروں نے انھیں 11 جولائی کو گرفتار کیا اور ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ فیصل مسجد کے گرد و نواح میں ’بلا اجازت ریڑھی لگا کر تجاوزات کے مرتکب ہوئے۔‘
صرف ایک دن بعد فرمان اللہ کو سی ڈی اے کے سینیئر سپیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں ملزم نے ’اعتراف جرم‘ کیا اور درخواست کی کہ ان کو معاف کر دیا جائے۔
بیان کے مطابق فرمان اللہ کا کہنا تھا کہ وہ یہ ’غلطی دوبارہ نہیں کریں گے۔ میں غریب آدمی ہوں، مجھے اپنے خاندان کا پیٹ پالنا ہے۔ میرے علاوہ ان کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔‘
تاہم سینئر سپیشل مجسٹریٹ سردار محمد آصف نے سی ڈی اے آرڈیننس 1960 کے سیکشن 46 اے اور مارشل لا ریگولیشن نمبر 63 کے تحت پانچ لاکھ روپے جرمانہ اور تین ماہ قیدِ بامشقت کی سزا سناتے ہوئے حکم دیا کہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں فرمان اللہ کو ایک ماہ کی اضافی قید کاٹنا ہو گی۔
اس کیس کے بارے میں جب بی بی سی نے سی ڈی اے کے ڈائریکٹر محمد کامران سے رابطہ کیا تو پہلے انھوں نے لاعلمی کا اظہار کیا۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’دیکھیں ہمارا ادارہ قانون کی پیروی کرتا ہے۔ اگر ہمارے ادارے کے لا ڈپارٹمنٹ نے گرفتار کیا ہے تو کچھ دیکھ کر کیا ہو گا۔‘
سی ڈی کے ایک اور افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’فرمان اللہ بیان ریکارڈ کروا چکے ہیں اور اب اس فیصلے پر مزید جو بھی بات چیت ہو گی وہ عدالت میں ہو گی۔‘
بی بی سی نے اسلام آباد کے چیف کمشنر اور چیئرمین سی ڈی اے نور الامین مینگل سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
دوسری جانب فرمان اللہ کے وکیل عمر اعجاز گیلانی کا ماننا ہے کہ ’ایک قلفی کی ریڑھی کو تجاوزات قرار دینا اور فرمان اللہ کو اس جرم میں جیل بھجوانا سی ڈی اے کی جانب سے بے حسی کی انتہا ظاہر کرتا ہے۔‘
عمر اعجاز کو فرمان اللہ کے علاقے کے نزدیک بنی کچّی آبادی کے لوگوں سے ان کی گرفتاری کا پتا چلا۔
انھوں نے سب سے پہلے ٹوئٹر پر اس کیس کے بارے میں پوسٹ کیا اور پوچھا کہ ’کس قانون کے تحت ایک ریڑھی لگانے والے فرد سے اس قسم کا برتاؤ کیا جارہا ہے؟‘
عمر اعجاز نے دعویٰ کیا کہ ’ایک غریب آدمی کو صرف قلفی بیچنے کے الزام میں گرفتار کیا جاتا ہے۔ پھر اس سے ’تفتیش‘ کے دوران بیان لیا جاتا ہے جس میں وہ ’قبول‘ کرتا ہے کہ اس نے ریڑھی لگائی ہے۔ اور ان 24 گھنٹوں کے دوران نہ اسے وکیل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی فیئر ٹرائل کی امید ملتی ہے۔‘
اپنی درخواست میں انھوں نے موقف اختیار کیا کہ فرمان اللہ کا مبینہ اعتراف جرم انھیں اپنے لیے وکیل کرنے کا موقع فراہم کیے بغیر لیا گیا۔
انھوں نے درخواست میں یہ بھی لکھا کہ ’ریڑھی زمین پر قبضہ یا تجاوزات شمار نہیں کی جا سکتی کیوں کہ ریڑھی کھوکا نہیں ہوتا بلکہ یہ کسی چلتی پھری گاڑی کی طرح ہے جو فیصل مسجد کی اطراف میں کافی تعداد میں موجود ہوتی ہیں۔‘
وکلا کے مطابق قانوناً کسی بھی ممنوعہ جگہ پر ریڑھی لگانے کا زیادہ سے زیادہ جرمانہ 400 روپے ہوتا ہے۔ لیکن فرمان اللہ پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ لگایا گیا ہے۔
عمر اعجاز کے مطابق اسلام آباد کی تاریخ میں کبھی ’سی ڈی اے نے کسی گاڑی والے کو اسی جرم میں تین ماہ قید اور ہانچ لاکھ جرمانے کی سزا نہیں کی لیکن ریڑھی والوں کے ساتھ باقاعدگی سے ایسا کیا جاتا ہے جو غربا کے خلاف سی ڈی اے کے امتیازی سلوک کی مثال ہے۔‘
واضح رہے کہ پچھلے کچھ سال سے اسلام آباد میں تجاوزات کے خلاف کارروائی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
اسلام آباد سے ہی تعلق رکھنے والی سماجی کارکن شہلا رضا نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پچھلے 15 سال میں پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کے نتیجے میں مزدور پیشہ افراد کی ایک بڑی تعداد نے ملک بھر میں نقل مکانی کی۔
’ایسے لوگوں کو کبھی کچی آبادیاں ہٹائے جانے یا پھر محنت مزدوری کرنے کے نتیجے میں گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ سرکار کا مزدور پیشہ افراد کے لیے نہ تو کوئی واضح پروگرام ہے اور نہ ہی برداشت۔‘
انھوں نے کہا کہ ’مزدوروں اور محنت کش افراد کے خلاف قانونی کارروائی کرنا قدرے آسان ہے لیکن اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز میں ہونے والی امیر لوگوں کے پراپرٹی میں غبن کرنے کے اور تجاوزات کے واقعات کو دبا دیا جاتا ہے۔‘
عمر گیلانی کہتے ہیں کہ ’اسلام آباد صرف امرا کے لیے نہیں بلکہ ہر طبقے کے لوگوں کے لیے ہے اور ان کا بھی اتنا ہی حق ہے ان سڑکوں پرمحنت مزدوری کرنے کا جتنا کہ کسی اور کا۔‘