اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے علاقے جنین میں ایک پناہ گزین کیمپ میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے نتیجے میں نو فلسطینی شہری ہلاک جبکہ 100 زخمی ہو گئے ہیں۔
اسرائیل کے جنین میں مسلسل حملے جاری ہیں۔
اسرائیل نے پیر کی الصبح جنین کے پناہ گزین کیمپ پر آپریشن کا آغاز متعدد ڈرون حملوں سے کیا اور اسرائیلی فوجیوں نے کیمپ پر چڑھائی کی جس کے نتیجہ میں دوطرفہ فائرنگ کا تبادلہ بھی ہوا۔
آپریشن کے دوران رہائشی علاقوں میں ڈرون حملے کیے گئے ہیں، جس کی ویڈیوز بھی سامنے آئی ہیں۔
فلسطینی وزارت صحت نے اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں نو افراد کی ہلاکت اور 100 شہریوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) نے کہا کہ وہ ’جنین کے علاقے میں دہشت گردوں کے بنیادی ڈھانچے‘ پر حملے کر رہے ہیں اور یہ ’دہشت گردوں کا گڑھ‘ ہے۔
اسرائیل کے وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ اس آپریشن کو پورے مغربی کنارے تک پھیلانے کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے ہیں۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس آپریشن میں اب تک کم از کم سات عسکریت پسند مارے گئے ہیں۔
فلسطینی وزیر اعظم محمد شتیہ نے جنین کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیمپ کو تباہ کرنے اور یہاں کے لوگوں کو بے گھر کرنے کی ایک نئی کوشش ہے۔ جینین کیمپ اور اس کے ثابت قدم پناہ گزین ہمارے باقی شہروں، دیہاتوں اور کیمپوں کی طرح قبضے اور اس کے حملوں کے خلاف مزاحم ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے بہادر عوام اس جارحیت کا مقابلہ کریں گے جو عالمی برادری کی نظروں کے سامنے ہو رہی ہے۔ جہاں بے گناہ لوگوں پر طیاروں سے بمباری کی جاتی ہے، وہاں ہمارے لوگ گھٹنے نہیں ٹیکیں گے اور ہتھیار نہیں ڈالیں گے اور ہم اس وقت تک محاذ آرائی میں رہیں گے جب تک یہ مجرمانہ قبضہ ختم نہیں ہو جاتا۔‘.
انھوں نے مزید کہا کہ ’جینین، نابلس اور غزہ میں ہونے والے جرائم اس وقت تک اسرائیل کے لیے سلامتی نہیں لا سکتے جب تک کہ وہ ہمارے لوگوں پر حملہ کرے اور تاریخ کے خلاف کام کرے گا۔‘
اسرائیل کے وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ اسرائیل کا ہدف فلسطینی عوام نہیں بلکہ ایران کی سرپرستی میں جنین میں سرگرم عسکریت پسند گروپ ہیں۔
یروشلم میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے کہا کہ اسرائیلی فوج اس وقت ’دہشت گردی کے مرکز پر پوری طاقت سے حملہ کر رہی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ جنگ حماس اور اسلامی جہاد جیسی ’ایران کی پراکسیز‘ کے خلاف ہے، جنھیں کوہن نے ’دہشت گرد تنظیموں‘ کے طور پر بیان کیا اور جنھیں مبینہ طور پر تہران مالی امداد فراہم کرتا ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ کوہن نے مزید کہا کہ ’دہشت گرد تنظیموں اور انھیں ایران سے ملنے والے فنڈز کی وجہ سے، جنین کیمپ دہشت گرد سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ’صرف اپنے ہدف کے خلاف کارروائی کرے گا‘ اور انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ فوج ’مقامی شہری آبادی کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کی پوری کوشش کرے گی۔‘
ادھر فلسطین ٹی وی کے مطابق فلسطینی صدر محمود عباس آج شام فلسطینی قیادت کے ایک ہنگامی اجلاس کی صدارت کریں گے، جس میں جنین اور اس کے کیمپ کے خلاف جاری قبضے اور جارحیت پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔
فلسطینی صدر محمود عباس کے ترجمان نے اسرائیلی کارروائی کو ’ہمارے غیر مسلح لوگوں کے خلاف ایک نیا جنگی جرم‘ قرار دیتے اس کی مذمت کی اور کہا کہ ’اس سے خطے میں سلامتی اور استحکام نہیں آئے گا۔‘
’جنین کمیپ میں اصل جنگ ہو رہی ہے‘
جنین میں موجود بی بی سی کے نامہ نگاروں کے مطابق ایسا لگتا ہے کہ یہ مغربی کنارے میں برسوں میں اسرائیل کی سب سے بڑی فوجی کارروائیوں میں سے ایک ہے۔
اسرائیلی فورسز نے جنین کے بڑے پناہ گزین کیمپ میں واقع ایک اپارٹمنٹ پر حملہ کرنے کے لیے ڈرون کا غیر معمولی استعمال کیا، جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اسے عکسریت پسند گروہوں پر مشتمل جینین بریگیڈز کے کمانڈ سینٹر کے طور پر استعمال کیا جا رہا تھا۔
اسرائیل کی جانب سے ڈرونز کو مزید فضائی حملوں کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جبکہ ہزاروں اسرائیلی فوجی بھی اس آپریشن میں شامل ہیں۔
اسرائیلی فوج کے ایک ترجمان نے اس آپریشن کو ’انسداد دہشت گردی آپریشن‘ قرار دیا ہے جس میں جنگجوؤں کے ہتھیاروں کو ضبط کرنے اور جنین کو ’محفوظ پناہ گاہ‘ کے طور پر کام کرنے سے روکنے پر توجہ دی گئی ہے۔
شدید فائرنگ کے دو طرفہ تبادلے کے دوران جینین بریگیڈز نے کہا ہے کہ اس کے جنگجو اپنی آخری سانس تک جوابی مقابلہ کریں گے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ وہ شہریوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم کرنے کے لیے اپنی پوری کوشش کر رہی ہے تاہم پہلے ہی بہت سے شہریوں کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔
کیمپ کے ایک رہائشی احمد ذکی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اسرائیلی فوج کی گاڑیوں کے قافلوں نے متعدد گلیوں سے کیمپ کے ارد گرد گھیرا ڈال لیا ہے۔‘
فلسطینی ایمبولینس ڈرائیور خالد الاحمد کا کہنا تھا کہ مہاجر کیمپ میں حقیقی جنگ ہو رہی ہے۔ انھوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ’آسمان سے کیمپ کو نشانہ بناتے ہوئے حملے کیے گئے ہیں جب بھی ہم وہاں جاتے ہیں تو پانچ سے سات ایمبولینسوں میں زخمیوں کو بھر کر واپس لاتے ہیں۔‘
مغربی کنارے میں حالیہ مہینوں میں پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
20 جون کو جنین میں اسرائیلی فورسز چھاپے کے دوران سات فلسطینی مارے گئے تھے جس میں فوج کی جانب سے مغربی کنارے میں برسوں میں پہلی مرتبہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے حملہ کیا گیا تھا۔
جبکہ اس کے اگلے دن، حماس کے دو بندوق برداروں نے جنین سے 40 کلومیٹر جنوب میں ایلی کی بستی کے قریب ایک پٹرول سٹیشن اور ریستوران میں چار اسرائیلیوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
ایک فلسطینی شخص کو بعد ازاں سینکڑوں آباد کاروں کی طرف سے ہنگامہ آرائی کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔
جنین کیمپ کیا ہے؟
جنین کیمپ، جنین شہر میں واقع ایک پناہ گزین کیمپ ہے جو مقبوضہ مغربی کنارے کے شمال میں واقع ہے۔
جنین کیمپ 1950 کی دہائی کے اوائل سے قائم ہے اور اسے 1948-1949 میں اسرائیل کی جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کے لیے قائم کیا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی فلسطینی پناہ گزین ایجنسی انروا کا کہنا ہے کہ اس وقت اس کیمپ میں تقریباً 14,000 افراد رہائش پذیر ہیں، جو صرف 0.42 مربع کلومیٹر پر قائم ہے۔
یہ کیمپ دوسری فلسطینی انتفادہ تحریک سے شدید متاثر ہوا تھا۔ اپریل 2002 میں اسرائیلی فورسز نے بڑے پیمانے پر کارروائی شروع کی تھی جسے ’جنگ جنین‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔
اس لڑائی میں کم از کم 52 فلسطینی شہری اور 23 اسرائیلی فوجی مارے گئے تھے۔ یہ دس روزہ آپریشن اسرائیل میں فلسطینیوں کے خودکش بم دھماکوں کی مہم کے بعد کیا گیا تھا۔
خودکش حملہ آوروں میں سے اکثر کا تعلق جنین شہر سے تھا۔
گذشتہ برس بھی جنین شہر اور کیمپ پر اسرائیلی فوج کے متعدد چھاپے دیکھے گئے تھے۔