اہم خبریں

اسرائیل میں عدالتی اصلاحات کی وجہ سے پیدا بحران کیا نوعیت اختیار کر رہا ہے؟

اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے سپریم کورٹ کے اختیارات کو محدود کرنے کے ایک انتہائی متنازع قانون کے منظور کیے جانے کے بعد اسرائیلی پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں۔

متنازع قانون کی یہ منظوری ایک بڑے اصلاحاتی پیکج کا حصہ ہے جو عدالت کو حکومتی اقدامات کو کالعدم قرار دینے سے روکے گا۔

یروشلم اور تل ابیب میں پولیس نے مرکزی شاہراہوں کو بلاک کرنے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال کیا ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی حکومت کی اصلاحات سے اسرائیلی جمہوریت کو خطرہ ہے۔

عدالتی نظام کے کام کرنے کے طریقے کو تبدیل کرنے کے حکومتی منصوبوں کی وجہ سے اسرائیل اپنی تاریخ کے سب سے سنگین بحرانوں میں سے ایک کی گرفت میں ہے۔ اسرائیل میں کیا ہو رہا ہے اس کا ایک مختصر جائزہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔

اسرائیل میں کیا ہو رہا ہے؟

رواں سال کے آغاز سے ہی حکومت کے اصلاحاتی منصوبوں کی مخالفت کرنے والے لوگوں کی طرف سے ہر ہفتے بڑے مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ مظاہروں کا پیمانہ بڑھتا جا رہا ہے اور ملک بھر کے قصبوں اور شہروں میں لاکھوں لوگ سڑکوں پر نظر آ رہے ہیں۔

حکومت اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹی اور اس نے سوموار کو پہلی منصوبہ بند تبدیلی کی جسے نام نہاد ‘معقولیت’ بل کہا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے سپریم کورٹ کو غیر معقول سمجھے جانے والے حکومتی فیصلوں کو منسوخ کرنے کا اختیار ختم ہو گیا۔

مظاہرین کا کہنا ہے کہ تمام منصوبہ بند اصلاحات کو ختم کیا جائے اور وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو مستعفی ہوں۔ انھیں وزیر اعظم نتن یاہو کے سیاسی حریفوں کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی فوج، انٹیلی جنس اور سکیورٹی سروسز کے سابق اعلیٰ عہدیداروں، سابق چیف جسٹسز، اور ممتاز قانون داں شخصیات اور کاروباری رہنماؤں کی حمایت حاصل ہے۔

حکومت کے اس اقدام نے دونوں طرف گہری تشویش پیدا کی ہے اور سینکڑوں فوجی ریزروسٹ بشمول فضائیہ کے پائلٹ جو اسرائیلی دفاع کے لیے اہم ہیں، نے دھمکی دی ہے کہ وہ سروس پر رپورٹ کرنے سے انکار کر دیں گے۔ اس سے یہ خطرہ پیدا ہو گیا ہے کہ ملک کی سلامتی کو سنگین طور پر خطرہ ہو سکتا ہے۔

لوگ کس بات پر اتنے ناراض ہیں؟

اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے مخالفین کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات عدالتی نظام کو کمزور کر کے ملک کی جمہوریت کو شدید نقصان پہنچائیں گی کیونکہ یہ حکومت کی طاقت کے استعمال کو روکنے کا واحد ذریعہ ہے۔

اس مخالفت کی بنیاد اسرائیل کی تاریخ میں سب سے زیادہ دائیں بازو کی حکومت کی مخالفت میں مضمر ہے اور خود بنیامن نیتن یاہو کی حکومت اس زمرے میں آتی ہے۔

ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات وزیر اعظم نتن یاہو کو حفاظت فراہم کریں گی جو اس وقت مبینہ بدعنوانی کے مقدمے کی زد میں (وہ الزامات سے انکار کرتے ہیں) ہیں اور حکومت کو بغیر کسی رکاوٹ کے قوانین کو پاس کرنے میں مدد کریں گے۔

حکومت کا استدلال ہے کہ عدلیہ قانون سازی میں بہت زیادہ مداخلت کرتی ہے، لبرل مسائل کی حمایت میں متعصب ہے اور یہ ججوں کے انتخاب کے طریقے میں غیر جمہوری ہے۔

اسرائیلی حکومت کون کون سی قانونی اصلاحات چاہتی ہے؟

وہ حکومت کی طاقت بمقابلہ عدالتوں کی جانچ پڑتال کی قوت کے بارے میں متفکر ہیں کیونکہ پہلے عدالت کو حکومتی فیصلے بدلنے کا اختیار ہوتا تھا۔ حکومت کا اور بعض دیگر حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ اصلاحات بہت دنوں سے زیر بحث ہیں، حالانکہ یہ منصوبے بہت سے لوگوں کی خواہش سے بہت آگے جاتے ہیں۔

معقولیت’ کے قانون کے علاوہ حکومت مزید اصلاحات چاہتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں

سپریم کورٹ کے حکومتی قوانین پر نظرثانی کرنے یا ان کو ختم کرنے کے اختیار کو کمزور کرتا ہے اور نیسٹ (پارلیمنٹ) میں ایک کی سادہ اکثریت سے ایسے فیصلوں کو کالعدم کرنے کے قابل بناتا ہے۔

سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں ججوں کی تعیناتی میں حکومت کا اثر و رسوخ بڑھ جائے گا۔ اس کمیٹی میں حکومتی نمائندگی بڑھ جائے گی جو ججوں کی تعینات کرتی ہے۔

وزرا کے لیے اپنے قانونی مشیروں کے مشورے پر عمل کرنے کی شرط کو ختم کرنا بھی اس میں شامل ہے جس کی رہنمائی اٹارنی جنرل کے ذریعہ کی جاتی ہے اور فی الحال وہ قانون کے مطابق عمل کرنے کے پابند ہیں۔

یہ بحران کہاں تک جائے گا؟

سڑکوں پرغم و غصہ دیکھا جا رہا ہے اور قوت ارادی کی جنگ کے ساتھ یہ بحران شدت اختیار کرتا نظر آتا ہے۔

وزیر اعظم نتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ نیسٹ کی گرمیوں کی چھٹیوں (اگست سے اکتوبر کے وسط تک) کے دوران باقی ماندہ اصلاحات پر وسیع عوامی اتفاق رائے تک پہنچنے کی کوشش کریں گے۔

تاہم وزیر اعظم اپنی کابینہ میں انتہائی دائیں بازو کے وزرا پر منحصر ہیں جن کی حمایت کے بغیر ان کی حکومت گر سکتی ہے۔ ان وزرا کا اصرار ہے کہ ان اصلاحات کو منظور کیا جانا چاہیے اور اسے کمزور نہیں کیا چاہیے۔

حزب اختلاف کا کہنا ہے کہ جب تک یہ عمل نہیں روکا جاتا وہ مذاکرات میں دوبارہ شامل نہیں ہوں گے۔

اسرائیل کی مرکزی مزدور یونین نے ملک گیر ہڑتال کی دھمکی دی ہے اور مظاہرین اپنی کارروائی کو تیز کرنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔ ایسے میں اس ہنگاموں کا کوئی خاتمہ نظر نہیں آتا۔