حالات کا رونا روئیں یا واقعات کو سبب بنائیں، زمینی حقائق اوپر لکھی تقدیر سے قطعی مختلف ہیں۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ نیوکلیائی ریاست کے 22 کروڑ عوام اپنی تقدیر کا فیصلہ بیرونی قوتوں کے ہاتھ دیں اور پھر نعرہ لگائیں کہ ’ہم کوئی غلام ہیں؟‘
یہ کس کتاب میں ہے کہ خودمختاری مالیاتی اداروں کے سپرد کر دیں اور گلا پھاڑ پھاڑ کر ’حقیقی آزادی‘ کا راگ الاپیں۔ یہ کون سا قانون ہے کہ چند ہزار اشرافیہ کروڑوں کی قسمتوں کا فیصلہ کرتے پھریں اور نام لیں غریب عوام کا؟
معذوری ہے یا مجبوری ہے مگر آئی ایم ایف بہت ضروری ہے۔ کوئی نجومی ستاروں کی چال سے وطن عزیز کی معیشت کا اندازہ لگا سکتا ہے نہ ہی کوئی نبض شناس اس وقت مرض کو بھانپنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
خدا خدا کر کے آئی ایم ایف نو ماہ کے لیے وقتی ریلیف کے لیے مانا اور نیوکلئیر ریاست کی جان میں جان آئی۔ یہ الگ بات کہ حکمرانوں کے چمکتے چہرے اس نئی ڈیل کے بعد عوام کے بجھتے چہروں کو نہیں دیکھ پائیں گے۔
کتنے گھروں کے چولہے مزید ٹھنڈے پڑیں گے، کتنی بھوک بڑھے گی اور کب تک آنتوں کی آگ بھڑکتی رہے گی، کتنی ہڈیاں کلپیں گی، نہ آئی ایم ایف کو پرواہ نہ مقتدرہ کو خبر، نہ ہی اشرافیہ کو فکر۔
قصور کس کا ہے؟ گریبان کس کا پکڑیں اور جواب کس سے مانگیں۔ جس در جواب چاہیے وہاں بھی سوال ہیں اور جہاں سوال خود سوالی ہوں وہاں جواب کیا ملے گا۔
قصہ مختصر نو ماہ کی مدت کے اس پروگرام میں ’تخلیق‘ کے سارے رستے موجود ہیں، بانجھ معیشت کو ان نو مہینوں میں زرخیز ہونا ہے ورنہ حالات نہ تو ہمارے قابو میں ہوں گے اور نہ ہی کسی کے اختیار میں۔
آئی ایم ایف کے اس معاہدے نے کم از کم اگلے چھ ماہ میں انتخابات کے انعقاد کی اُمید دلا دی ہے مگر ان انتخابات سے قبل کیا کیا ہونا باقی ہے؟ سیاسی استحکام کے لیے غیر حقیقی سیاست سے چھٹکارا؟ مگر یاد رہے کہ غیر حقیقی جماعت کے ووٹر اور حامی حقیقی ہیں۔
تحریک انصاف سیاسی عمل میں شریک نہ ہوئی تو سیاسی عمل غیر سیاسی نہیں ہو گا؟ اور تحریک انصاف مائنس عمران شریک ہوئی تو اُس کی حیثیت کیا ہو گی؟
حکمران اتحاد اگست کے پہلے ہفتے میں رخصت ہوا تو نگران سیٹ اپ کا دائرہ اختیار کیا ہو گا اور دُنیا کس حد تک اسے جائز تسلیم کرے گی؟
نگران حکومت معیشت کی بحالی کے لیے کیا اقدامات کر پائے گی جبکہ پشت پر سیاسی حمایت موجود نہ ہو۔۔۔ سیاست کے تمام کھلاڑی اپنے اپنے بازو کس کر میدان میں اُتر آئے ہیں اور الجبرے کی سیاست میں مائنس، پلس، ضرب اور تقسیم کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔
سوال یہ ہے کہ معیشت کی بہتری کے بغیر ریاست آگے نہیں بڑھ سکتی اور ریاست سیاست کے بغیر کچھ کر نہیں سکتی جبکہ سیاست میں عدم استحکام ہے اور استحکام کے لیے مائنس، پلس کا فارمولا ہے۔
2018 کے انتخابات میں شطرنج کی میز پر کھلاڑی تبدیل ہوئے تھے، بازی پلٹی گئی تھی اور ایک ایسا کھیل بنایا گیا تھا جس میں ہار کا تصور نہ تھا۔ اب کی بار نو مئی کے واقعات ہیں اور کھیل یکسر تبدیل، انتخابات سے قبل عمران خان کے لیے ایک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔
عمران مائنس ہوں گے یا نواز شریف پلس، خراب کی گئی چیزوں کو ’ان ڈو‘ کرنے کا وقت آن پہنچا ہے البتہ ان معاملات میں میرٹ ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا۔
نیب کے متعلقہ قوانین جن کا بھرپور استعمال عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے کیا اُن میں ایک مرتبہ پھر تبدیلی لائی جا رہی ہے اور ضمانت کے دورانیے کو 14 سے بڑھا کر 30 دن تک کیا جا رہا ہے۔ رات گئے قائم مقام صدر سنجرانی نے یہ آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔
ایسی صورت میں عمران خان کی گرفتاری نوشتہ دیوار ہے جبکہ انتخابات سے قبل ان مقدمات کا فیصلہ بھی ممکن نظر آتا ہے۔
انتخابات سے قبل اور سولہ ستمبر کی جادوئی تاریخ کے بعد گرینڈ ڈائیلاگ کا آغاز ممکن ہے تاہم انتخابات کے بعد ’حقیقی‘ سیاسی جماعتوں کے لیے مینڈیٹ کے ساتھ مذاکرات اور ’میثاق‘ کرنا نسبتا آسان دکھائی دیتا ہے یہی وجہ ہے کہ انتخابات جلد یا بدیر 2024 میں ممکن ہو سکتے ہیں۔
قلیل المدتی اور طویل المدت اصلاحات کے لیے قومی رہنماؤں اور تمام سٹیک ہولڈرز کو ایک جگہ بیٹھنا ہے اور معاشی ایجنڈے کو ترجیحی بنیادوں پر آگے بڑھانا ہے، وقت اور حالات کا تقاضا یہی ہے لیکن آئینی ضروریات کو مدنظر رکھنا بھی ضروری۔
اب آگے بڑھنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اب نہیں تو کب؟