بالی وڈ اداکارہ کاجول کا کہنا ہے کہ ان کی شادی کرنے کی خبر سن کر ان کے والد ناراض ہو گئے تھے کیونکہ ان کے خیال میں ابھی وہ بہت کم عمر تھیں۔
جب اداکارہ کاجول نے ساتھی اداکار اجے دیوگن سے شادی کی تو اس دور میں خیال کیا جاتا تھا کہ شادی شدہ اداکار کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔
بی بی سی ہندی کے ساتھ انٹرویو میں کاجول کا کہنا تھا کہ ’شادی شدہ اداکارہ کی اہمیت کم ہونے کا تصور خود اداکاراؤں کے اپنے دماغ میں ہوتا ہے ورنہ شرمیلا ٹیگور، سائرہ بانو، ہیما مالنی جیسی فنکاروں نے اپنی بڑی ہِٹس شادی کے بعد دیں۔‘
کاجول نے انھوں نے اپنی شادی کے فیصلے پر اپنے والد کی ناراضگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے ڈیڈی کا مجھ سے بات نہ کرنا بہت بڑی بات تھی، جیسے کوئی پہاڑ گِر جائے۔ لیکن بعد میں انھوں نے کہا آپ کا فیصلہ ہے تو ٹھیک ہے لیکن انھوں نے اپنے ناخوش ہونے کا اظہار واضح انداز میں کیا تھا۔ ‘
کاجول کا کہنا تھا کہ ان کے والد نے کہا کہ ’ابھی شادی کیوں کرنی ہے ابھی تم بہت چھوٹی ہو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے جواب دیا کہ مجھے دس سال ہو گئے کام کرتے ہوئے کہاں سے چھوٹی ہوں میں! اب شادی کا فیصلہ بھی میرا ہونا چاہیے۔ مجھے لگتا ہے میں شادی کے لیے تیار ہوں۔ پھر انھوں نے ایک ہفتے تک مجھ سے بات نہیں کی۔‘
کاجول کا کہنا ہے کہ ان کی اجے دیوگن سے پہلے ملاقات میں ہی انھیں احساس ہوا تھا ’یہ وہ شخص ہے جس کا میری زندگی پر اثر ہو گا۔‘
’اس زمانے میں وینیٹی نہیں ہوا کرتی تھی۔ ہم سیٹ پر بیٹھتے تھے اور بوریت دور کرے کے لیے ہم نے بات چیت شروع کی۔‘
انھوں نے اپنی کامیابی سے جاری شادی شدہ زندگی کے متعلق ازراہِ تفنّن کہا کہ ’اجے نے میری اونچی آواز کو بہت برداشت کیا ہے وہ بھی کہتا ہے کہ کاش تیرا میوٹ بٹن ہوتا۔‘
کاجول کا مزید کہنا تھا کہ ’رشتے نبھانے کا ایک راز ہے اور وہ ہے کوشش، جب تک آپ کوشش کرتے رہیں گے رشتے نبھاتے رہیں گے، جس دن آپ کوشش کرنا بند کر دیں گے آپ ناکام ہو جائیں گے۔
’مجھے کبھی اپنے فیصلوں پر پچھتاوا نہیں ہوا‘
کاجول کا کہنا تھا کہ ’میری ماں نے مجھے بہت پہلے سے سکھایا اور بتایا تھا کہ ایک بالغ انسان کیسا ہونا چاہیے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’سب سے پہلے ایک بالغ فرد اپنے فیصلوں کا ذمہ دار خود ہوتا ہے۔ تعریف اور برائی دونوں آپ کے فیصلوں سے ہو گی اور آپ میں یہ ہمت ہونی چاہیے کہ اپنے فیصلوں کو اپنا سکیں۔ اسی لیے میں نے ہمیشہ اپنی سنی ہے۔‘
کاجول کا کہنا تھا کہ ’میری ماں نے عمل کر کے سکھایا کہ اپنے لیے کیسے سوچنا ہے۔ ‘
’میری حسِ مزاح بھی میرے کام کی وجہ سے ہے۔ میں نے سیٹ پر ہر طرح کے جذبات دیکھے۔ میں نے کئی غیر معروف فیصلے کیے لیکن مجھے کبھی پچھتاوا نہیں ہوا۔‘
سوشل میڈیا کا بچوں پر اثر
سوشل میڈیا پر کاجول کی بیٹی نسا کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاتا ہے تو اس کا ان پر اور ان کے بچوں پر کیسا اثر ہوتا ہے؟
اس سوال کے جواب میں کاجول کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا پر لوگ ہر طرح کا ردِعمل دیتے ہیں۔ یقیناً اس کا اثر ہوتا ہے لیکن میں انھیں (بچوں کو) کہتی ہوں کہ اگر کچھ لوگ غلط کہتے بھی ہیں، ایک ہزار میں سے 999 نے اچھی چیزیں ہی بولی ہیں۔ آپ اکثریت کے ساتھ جائیں۔ منفی چیزوں پر دھیان نہ دیں۔ ‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے بیٹی نسا کے لیے برا بھی لگتا ہے وہ صرف 19 سال کی ہے۔ ہم اس لیے اس عمر میں بہت سے چیزوں سے نکل گئے کیونکہ اس وقت سوشل میڈیا نہیں تھا۔ اُسے برا لگتا ہے اور مجھے اسے سمجھانا پڑا ہے کہ یہ محض پانچ لوگوں کی سوچ ہے۔ یہ صرف ایک رائے ہے جس کی کوئی اہمیت نہیں۔‘
بیٹا کہتا ہے ’ایسی فلم کریں جس میں روئیں نہ‘
کاجول کا کہنا تھا کہ ان کی بچے ان کی فلمیں نہیں دیکھتے۔
اس کی وجہ بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’کیونکہ میرے بچے مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ میرا بیٹا مجھ سے کہتا ہے کہ ’ماما میں آپ سے بہت پیار کرتا ہوں میں آپ کو روتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔ ‘
کاجول کہتی ہیں کہ ’میرے پاس اس کے جواب میں کوئی دلیل نہیں ہوتی اس لیے کہتی ہوں اچھا تم نہ دیکھو۔‘
کاجول کے بقول ان کا بیٹا ان سے کہتا ہے کہ ’آئندہ پکچر کرو تو اس میں رونا مت۔ میں کہتی ہوں ایسا تو نہیں ہوتا ناں۔ کہ ایسی پکچر ہو کہ میں نہ روؤں۔ تھوڑا ہنسنا، تھوڑا رونا ہوتا ہے تبھی فلم بنتی ہے۔‘
’وہ کہتا ہے آپ پاپا کی طرح کی فلمیں کیوں نہیں بناتیں جیسے گول مال ہے۔‘
کاجول کسی حد تک اپنے بیٹے سے متفّق بھی ہیں کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ کامیڈی کرنا چاہتی ہیں کیونکہ وہ بھی رو رو کر تھک گئی ہیں۔
بچوں کے اداکاری کے میدان میں آنے سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ ’نسا کا ابھی ایسا کوئی ارادہ نہیں تاہم جب وہ آنا چاہے گی تو ہم اس کا ساتھ دیں گے۔‘