’شاید سب سے یادگار دن وہ تھا جب ہمیں معاون پائلٹ کی گھڑی ملی، اور یہ بالکل اسی وقت رک گئی تھی جب طیارہ پانی سے ٹکرایا تھا۔‘
یہ الفاظ تھے ماہی گیر سیم مک کیبن کے جو لاپتہ رائل ایئر فورس کے طیارے کو تلاش کرنے کے خفیہ ریسکیو مشن میں اپنے کردار کی کی کہانی بیان کرتے ہیں۔
شمالی آئرلینڈ کے ماہی گیروں نے60 برس قبل برطانوی رائل ایئر فورس کے بی ٹو بمبار طیارے کی تجرباتی پرواز کے دوران تباہی کے بعد سمندر سے اس طیارے کا ملبہ لاش کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
اس واقعے کو 60 سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے جب انھیں اور شمالی آئرلینڈ سے تعلق رکھنے والے مرد ماہی گیروں کے ایک گروہ کو برطانوی حکام نے آپریشن وکٹر سرچ میں مدد کی درخواست کی تھی۔
اگر آپ اس آپریشن کے کوڈ نام سے واقف نہیں ہیں تو آپ کو معاف کیا جا سکتا ہےکیونکہ فوجی آپریشن کئی سالوں تک خفیہ رکھا گیا تھا۔
سیم ماہی گیروں کے ممبران میں واحد شخص ہیں جو زندہ ہیں اور فوجی طیارے کی تلاش میں جو کچھ ہوا اس کی تفصیلات بتاتے ہیں۔
فوجی طیارے کی پراسرار گمشدگی
ایک پروٹو ٹائپ برطانوی بمبار طیارہ ایک ہینڈلی پیج وکٹر بی ٹو، اپنے عملے کے پانچ ارکان کے ساتھ تجرباتی پرواز کے دوران غائب ہو گیا تھا۔
جوں جوں وقت گزرتا گیا عملے کے زندہ بچ جانے کی امیدیں دم توڑ گئیں۔ لیکن سرد جنگ کے دوران برطانوی فوج کو یہ جاننے کی ضرورت تھی کہ طیارہ کیوں گر کر تباہ ہوا۔
کیا یہ مکینیکل خرابی تھی یا طیارے کے ڈیزائن میں کوئی خرابی تھی جو اس کی تباہی کا باعث بنی؟
کچھ عینی شاہدین کے مطابق طیارہ ویلز کے ساحل کے قریب تیز رفتاری سے پانی سے ٹکرا گیا تھا۔
ریسکیو مشن میں مدد کے لیے برطانیہ سے 40 سے زائد بحری جہاز اور چار ہزار افراد کو بھرتی کیا گیا تھا۔
اگرچہ اس وقت یہ زیادہ لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ اس ریسکیو مشن میں شمالی آئرلینڈ کے مورن بیڑے کے نو ماہی گیر ٹرالر بھی شامل تھے جن میں سے چھ کلکیل اور تین انالونگ سے تھے۔
ان کے ماہی گیری کے جال کو سمندر کی تہہ کو کھرچنے اور طیارے کے کچھ حصوں اور حادثے کی وجہ کے بارے میں اہم معلومات حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔
ناموافق سمندری حالات
عملے نے کئی مہینوں تک ناموافق سمندری حالات میں سخت محنت کی۔ اپنے مشن کے اختتام تک مورن ٹرالرز نے دوسرے امدادی جہازوں کی مدد سے 12,000 سے زیادہ بار سمندر کی تہہ سے سامان اٹھایا تھا اور لاپتہ بمبار طیارے کے تقریباً چھ لاکھ ٹکڑے بازیاب کیے تھے۔
کلکیل کے ایک بحری جہاز گرین پاسچرنے ایک ہی دن میں طیارے کے 7,000 سے زائد ٹکڑوں کو جال کے ذریعے سمندر سے ڈھونڈنے کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔
مجموعی طور پر تباہ شدہ طیارے کا 70 فیصد حصہ بازیاب کر لیا گیا جو سطح سمندر سے ٹکرانے کے بعد ہزاروں ٹکڑوں میں بکھر گیا تھا۔
اس نے برطانوی حکام کو حادثے کی وجوہات کے بارے میں معقول طور پر مطمئن ہونے کے لیے کافی معلومات فراہم کیں۔
یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ حادثے کا سبب بننے والے مسئلے کو حل کرنے کے لیے صرف معمولی تبدیلیوں کی ضرورت تھی ، جس کے بعد اس بمبار طیارے کو فروری 1962 میں فوجی سروس میں داخل ہونے کی اجازت ملی۔
ریسکیو مشن مکمل ہونے کے بعد مورن ٹرالر کے ماہی گیر اپنے پرانے کاموں پر واپس چلے گئے۔
عملے کے افراد
سیم میک کیبن ریسکیو مشن میں شریک مورن عملے کے سب سے کم عمر ارکان میں سے ایک تھے۔ وہ طویل عرصے سے ماہی گیری کو خیرباد کہہ چکے ہیں ان کی عمر 80 کی دہائی کے آخر میں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ہم ایک وقت میں سات یا آٹھ دن جہاز کی باقیات کو ڈھونڈنے کے لیے سمندر میں جاتے تھے۔ ایک دن ہمیں آپ کے ناخن کے سائز کے 400 ٹکڑے ملے اور ہم نے جو سب سے بڑا ٹکڑا اٹھایا وہ تقریباً 20 فٹ لمبا تھا۔
’میں پائلٹ کی گھڑی ڈھونڈنا کبھی نہیں بھولوں گا، ہمیں پہلے یقین نہیں تھا کہ یہ کیا ہے لیکن پھر ہم واقعی حیران رہ گئے۔‘
آپریشن وکٹرسرچ کے بعد سالوں تک سیم جیسی حیرت انگیز کہانیاں بڑی حد تک ناقابل بیان رہیں کیونکہ اس وقت مشن خفیہ تھا۔
لیکن 1979 میں تلاش میں شامل دیگر جہازوں میں سے ایک کے رکن کو اپنا تجربہ ایک کتاب میں شائع کرنے کی اجازت مل گئی۔
اپنے تجربے کے ساتھ ساتھ ، ڈگلس اے کوسٹر نے حادثے کے بعد سرچ آپریشن کی قیادت اور اس کے بعد کی تحقیق کی۔
تباہ شدہ فوجی جہاز کی تلاش میں شمالی آئرلینڈ کا کردار 1990 کی دہائی کے اوائل تک لوگوں کو معلوم نہیں تھا۔ لیکن جب تک ڈگلس اے کوسٹر کی کتاب مورن آبزرور کے اس وقت کے ایڈیٹر ٹیرنس بومن کے سامنےرکھی گئی تو اس سے یہ تفصیلات سامنے آنے لگیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ لوگ بدترین حالات میں بھی ملبے کی تلاش کرتے رہے اور یہ حیرت انگیز ہے کہ وہ کیا کچھ نکالنے میں کامیاب رہے۔‘
ان دنوں عام لوگ اس کے بارے میں بہت کم جانتے تھے اور میرے خیال میں یہ سب سے بڑی مقامی کہانیوں میں سے ایک ہے جس کے بارے میں کبھی بات نہیں کی گئی۔
1994 کے موسم گرما میں ، مورن آبزرور اس کتاب کا ایک سلسلہ وار مختصر ورژن شائع کیا تھا جس میں مورن کے مرد ماہی گیروں کے کردار کو اجاگر کیا گیا تھا۔
مسٹر بومین نے 2011 میں مورن آبزرور کے ایڈیٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا لیکن وہ آپریشن وکٹر سرچ سے شمالی آئرلینڈ کے تعلق کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
انھوں نے کہا، ’اخبار نے اتنے سال پہلے اپنا کام کیا تھا، لیکن اخبار اگر آن لائن نہ ہو تو اس تک رسائی مشکل ہوتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’حقیقت یہ ہے کہ جب آپ سرچ انجن میں آپریشن وکٹرکے متعلق جاننے کے لیے کچھ ڈالتے ہیں تو عملی طور پر کچھ بھی سامنے نہیں آتا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ بہت اچھی بات ہے کہ سیم میک کیبن جیسےلوگ اس سرچ آپریشن کے متعلق بتا رہے ہیں جس کا وہ خود حصہ تھے۔‘
’میں کہوں گا کہ آج تک یہ برطانوی پانیوں میں ہونے ہونے والے بڑے سرچ آپریشنوں میں سے ایک تھا۔‘