اہم خبریں

آسٹریلیا کے خلاف ’چِیٹس‘ کے نعرے: ’لارڈ میرا پسندیدہ گراؤنڈ ہے، مگر آج وہاں کوئی عزت نہ تھی‘

لارڈز میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان دوسرا ایشز ٹیسٹ اس وقت ڈرامائی موڑ اختیار کر گیا جب آسٹریلوی وکٹ کیپر الیکس کیری نے انگلش بلے باز جونی بیئرسٹو کو کریز سے نکلنے پر آؤٹ کر دیا۔

بیئرسٹو نے بال کے ڈیڈ ہونے کا انتظار کیوں نہ کیا؟ مگر کیری نے انھیں کریز سے نکلنے پر وارننگ کیوں نہ دی؟ اس واقعے نے کرکٹ کے اصولوں اور ’سپرٹ آف کرکٹ‘ کے درمیان بحث دوبارہ چھیڑ دی ہے۔

مگر بیئرسٹو کو آؤٹ دیے جانے پر لارڈ کے شائقین نے آسٹریلوی ٹیم کے خلاف خوب نعرے بازی کی۔

جب میچ میں دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوا تو کراؤڈ نے یہ نعرے لگایا ’سیم اولڈ آزیز، الویز چیٹنگ۔‘ یعنی آسٹریلوی ٹیم اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے ہمیشہ بےایمانی کرتی ہے۔

لنچ کے بعد لانگ روم میں عثمان خواجہ کے ساتھ ’بدتمیزی‘

بیئرسٹو کی وکٹ کے بعد نئے انگلش بلے باز سٹورٹ براڈ نے آسٹریلوی وکٹ کیپر کیری سے کہا کہ ’آپ کو ہمیشہ اس چیز کے لیے یاد رکھا جائے گا۔‘

انھوں نے میچ کے بعد اس واقعے کو ’کرکٹ میں سب سے بُری چیز‘ قرار دیا۔

اس کے بعد آسٹریلوی کھلاڑی لنچ کے لیے لارڈ کے لانگ روم میں داخل ہوئے جہاں اس تاریخی گراؤنڈ کے میرلبون کرکٹ کلب (ایم سی سی) کے ممبرز کو یہ اعزاز ملتا ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو اپنے سامنے سے گزرتا دیکھتے ہیں۔

اس دوران بعض ممبرز نے ’چیٹس، چیٹس، چیٹس‘ کے نعرے لگائے۔ عثمان خواجہ اور ڈیوڈ وارنر جیسے بعض آسٹریلوی کھلاڑیوں نے رُک کر ان ممبرز کو جواب بھی دیے مگر سکیورٹی اہلکاروں نے حالات کو قابو میں رکھنے کے لیے کھلاڑیوں اور ممبرز کو ایک دوسرے سے دور رکھا۔

اطلاعات کے مطابق تحقیقات کے بعد تین ایم سی سی ممبرز کی رکنیت معطل کی گئی ہے۔

جبکہ عثمان خواجہ نے کہا ہے کہ ’لارڈ میرا پسندیدہ گراؤنڈ ہے۔ یہاں اتنی عزت دی جاتی ہے، خاص کر ممبرز پویلین اور لانگ روم میں۔ مگر آج وہاں کوئی عزت نہ تھی۔ میں نے ان لوگوں کی نشان دہی کی۔ میں ممبرز سے بہتر کی توقع کرتا تھا۔‘

انھوں نے کہا کہ ممبرز نے کچھ ایسی باتیں کہیں جن سے بہت مایوسی ہوئی ہے۔ ’میں صرف چُپ رہ کر یہ سب نہیں سُن سکتا تھا۔ میں نے ان میں سے کچھ سے بات کرنا چاہی۔‘

ایم سی سی نے اس واقعے پر آسٹریلوی ٹیم سے معذرت کی ہے۔

آسٹریلیا کی ٹیم مینجمنٹ نے کہا ہے کہ کچھ کھلاڑیوں اور سٹاف کو مبینہ طور پر گالیاں دی گئیں اور الزامات لگائے گئے۔ ادھر سٹوکس کہتے ہیں کہ ’جب ہم آسٹریلیا جاتے ہیں تو ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔‘

بیئرسٹو کو آؤٹ دینا متنازع فیصلہ کیوں؟

کرکٹ پر بی بی سی کے نامہ نگار جوناتھن ایگنیو بتاتے ہیں کہ وہ کئی برسوں سے لارڈز کے گراؤنڈ میں آ رہے ہیں لیکن انھوں نے آج تک ایسے مناظر نہیں دیکھے جو اتوار کو دوسرے ایشز ٹیسٹ کے دوران دیکھنے کو ملے۔

آسٹریلیا کے کپتان پیٹ کمنز جب انگلینڈ کے خلاف اس ڈرامائی اور متنازع فتح کے بعد گفتگو کرنے آئے تو ان کے خلاف نعرے بازی ہوئی۔

ماحول میں خوف کا عنصر تھا۔

لارڈز میں عموماً اتوار کو آنے والے شائقین کچھ الگ ہوتے ہیں۔ ان 30 ہزار شائقین نے کوئی لگی لپٹی رکھے بغیر اپنے جذبات کا بھرپور اظہار کیا۔

مگر ایک بات واضح ہے: تکنیکی اعتبار سے جونی بیئرسٹو کی متنازع وکٹ آؤٹ ہی تھی۔

وہ بال کے ڈیڈ ہونے سے پہلے ہی کریز سے باہر نکل آئے اور وکٹ کیپر الیکس کیری نے بڑی چالاکی سے گیند سٹمپس کی جانب پھینک کر انھیں چلتا کیا۔

بیئرسٹو شاید اس لیے کریز سے نکلے تھے تاکہ یہ دیکھ سکیں کے گیند کہاں ٹھپا کھا کر نیچے بیٹھی ہے۔ انھیں لگا کہ بال ڈیڈ ہو ہی چکی ہو گی لیکن کرکٹ میں ایسے نہیں چلتا۔

امپائر احسن رضا بھی سمجھ رہے تھے کہ اوور ختم ہو گیا لہذا وہ کیمرن گرین کی ٹوپی انھیں واپس کرنے جا رہے تھے۔ ایسا لگا جیسے اوور ختم ہو گیا ہے مگر تکنیکی اعتبار سے چیزیں ایسے نہیں ہوتیں۔

مگر اصل مسئلہ دوبارہ ایک پیچیدہ چیز ہے جس کا نام ’سپرٹ آف کرکٹ‘ یعنی کھیل کا جذبہ ہے۔

یہاں بات کرکٹ کے اصولوں کی نہیں ہو رہی بلکہ کچھ غیر تحریر شدہ قواعد و ضوابط ہیں جن کی ہم پیروی کرتے ہیں۔ یہ ایک ذاتی چیز ہے۔

اوور کی گذشتہ تین گیندوں کے دوران بھی بیئرسٹو نے ایسا ہی کیا تھا کہ وہ گیند وکٹ کیپر کے پاس جانے پر کریز سے نکل جاتے تھے۔ لیکن وہ اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کر رہے تھے۔ وہ نہ تو رن لینے کے لیے آگے جا رہے تھے اور نہ ہی سوئنگ کا مقابلہ کرنے کے لیے کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے تھے۔

شاید کچھ لوگ اس بات سے متفق نہیں ہوں گے لیکن بہتر یہ ہوتا کہ اگر آسٹریلیا بیئرسٹو کو وارننگ دیتا کہ اگر انھوں نے دوبارہ ایسا کیا تو انھیں آؤٹ کر دیا جائے گا۔

سنہ 2009 میں بھی ایسی ہی صورتحال سامنے آئی تھی جب انگلینڈ نے نیوزی لینڈ کے بلے باز گرانٹ ایلیئٹ کو آؤٹ کیا تھا۔ اس ون ڈے میں بولر رائن سائڈ بوٹم کی ٹکر سے ایلیئٹ گِر گئے تھے۔ کپتان پال کالنگ وڈ کو چاہیے تھا کہ وہ اپیل واپس لیتے جب ٹی وی امپائر فیصلے پر سوچ بچار کر رہا تھا۔

اسی طرح ایشز میں آسٹریلوی کپتان کمنز کے پاس بھی موقع تھا کہ وہ ذہن تبدیل کر کے اپیل واپس لے لیتے۔ جب آپ کھلاڑیوں سے بات چیت کرتے ہیں تو آپ انھیں کہہ سکتے ہیں کہ ’اس بارے میں سو فیصد اعتماد محسوس نہیں کر رہا۔‘

مگر میچ کے بعد کمنز اپنی پوزیشن پر قائم ہیں اور اسے صحیح مانتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک ذاتی فیصلہ ہے۔

ایک چیز واضح ہے کہ اس واقعے نے انگلش کپتان بین سٹوکس کو غصہ دلایا۔ انھوں نے 155 رنز کی باری کھیلی اور ایک موقع پر یہ میچ آسٹریلیا کی پہنچ سے دور کر دیا۔

مگر گھٹنے پر چوٹ نے سٹوکس کو روک دیا اور وہ آؤٹ ہو گئے۔ سٹوکس انگلینڈ کے بہترین کھلاڑیوں میں سے ہیں اور ایسا واضح ہے کہ آسٹریلیا کی ٹیم ان سے خوفزدہ ہے۔ کمنز نے ان کی باری کے دوران کئی فیلڈر باؤنڈری پر رکھے ہوئے تھے۔

اب سیریز میں آسٹریلیا کو اب دو صفر کی برتری حاصل ہے۔ تاہم بیئرسٹو کی وکٹ پر انگلش فینز کافی جوش آ گئے ہیں۔ اس سے دونوں ٹیموں کے درمیان تعلقات کچھ بگڑ سکتے ہیں۔ واپسی کے لیے انگلینڈ اس چیز کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔