اہم خبریں

آسٹریلیا میں ایسا خاص کیا ہے جو انڈیا کے تارکین وطن کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے؟

روہت سنگھ ایسے لہجے میں بولتے ہیں جو ان کی والدہ کے لہجے سے واضح طور پر مختلف ہے۔

وہ دوسری نسل کے انڈین تارکین وطن ہیں جو مارننگٹن جزیرہ نما میں آباد ہیں۔ یہ علاقہ آسٹریلین شہر میلبرن سے تقریباً ایک گھنٹے کی مسافت پر ہے۔

پچھلے دو سالوں سے وہ اپنے والدین کی وائنری ’بوٹیک آونی‘ کو چلانے میں مدد کر رہے ہیں۔ یہ وائنری انھوں نے سنہ 1990 کی دہائی میں آسٹریلیا نقل مکانی کے بعد قائم کی تھی۔

روہت سنگھ کا کہنا ہے کہ پچھلی دہائی میں میلبرن میں جنوبی ایشیائی کمیونٹی کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اس لیے آونی نے وائن پیئرنگ ایونٹس کی میزبانی شروع کر دی ہے جس میں مخصوص انڈین پکوانوں کو مختلف شراب کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ جیسے مین پولیچھاتھو (جنوبی انڈیا کے مخصوص انداز میں پکئی مچھلی) کو پنوٹ گریس شراب کے ساتھ پیش کرنا یا دال مکھنی کو پینوٹ نوائر شراب کے ساتھ پیش کرنا غیرہ۔

ان تجربات کے پیچھے جو شیف اور ریستوراں چلانے والے ہیں وہ ان سات لاکھ سے زیادہ انڈینز میں سے ہیں جو آسٹریلیا میں رہتے ہیں اور وہ دنیا کی سب سے بڑی ‘تارکین وطن’ آبادی میں سے ایک ہیں۔ ملک کی تازہ مردم شماری کے مطابق پچھلے کچھ سالوں میں ان کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔

انڈینز اب آسٹریلیا میں دوسرے سب سے بڑے مہاجر گروپ ہیں اور انھوں نے چینی تارکین وطن کو پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اب وہ انگریزوں کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں۔ انڈیا کے تارکین وطن کی نئی لہر بہت حد تک ٹیک سیکٹر کی وجہ سے سامنے آئی ہے کیونکہ ملک میں ہنر مند کارکنوں کی بہت زیادہ مانگ ہے۔

آرتی بیٹیگیری ایک صحافی ہیں اور وہ ان دنوں آسٹریلیا میں پروان چڑھنے والے انڈین کے تجربات پر مبنی ایک کتاب کی ادارت کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ جب ان کے والدین سنہ 1960 کی دہائی میں آسٹریلیا منتقل ہوئے تو وہاں انڈیا کے لوگ شاذ و نادر ہی نظر آتے تھے اور وہ ان کی عوامی زندگی کا حصہ نہیں تھے۔

لیکن آج چیزیں مختلف ہیں۔ ’وہ تمام شعبوں کی ملازمتوں میں ہیں، اپنے کاروبار چلا رہے ہیں اور سیاست میں بھی داخل ہو رہے ہیں۔‘

حال ہی میں منتخب ہونے والی نیو ساؤتھ ویلز حکومت میں چار انڈین نژاد سیاستدان ہیں جن میں ڈینیئل موکھی بھی شامل ہیں۔ مسٹر موکھی مارچ میں آسٹریلوی ریاست کے خزانچی بنے اور اس طرح وہ کسی آسٹریلوی ریاست پہلے ہند نژاد سیاست دان ہیں جو اس حیثیت تک پہنچے ہیں۔ ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے کیونکہ انڈین-آسٹریلین باشندوں کے ساتھ غیر یورپی نسب والوں کی اب بھی سیاست میں، خاص طور پر وفاقی سطح پر بہت کم نمائندگی ہے۔

مز بیٹیگیری کہتی ہیں کہ سافٹ پاور کی برآمدات نے دونوں ممالک کو متحد کرنے میں بڑا کردار ادا کیا ہے۔ سڈنی میں ہونے والی ایک حالیہ ریلی میں انڈین تارکین وطن نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی۔ وہاں انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی نے انڈیا آسٹریلیا کے تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کس طرح ٹی وی شو ماسٹر شیف آسٹریلیا، کرکٹ اور فلمیں دونوں ممالک کے لوگوں کو اکٹھا کر رہی ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت جو سنہ 2014 سے انڈیا میں برسراقتدار ہے اس نے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ نومبر سنہ 2014 میں مودی کا آسٹریلیا کا دورہ تقریباً تین دہائیوں میں کسی انڈین وزیر اعظم کا پہلا دورہ تھا۔

گذشتہ ماہ مئی میں سڈنی کے اپنے حالیہ دورے کے دوران دونوں ممالک نے ہجرت کے ایک معاہدے کا اعلان کیا تاکہ طلباء، ماہرین تعلیم اور پیشہ ور افراد کے لیے انڈیا اور آسٹریلیا میں سفر اور کام کرنا آسان بنایا جا سکے۔ انھوں نے ایک جامع اقتصادی تعاون کے معاہدے کو انجام دینے کے لیے اپنے عزم کا اعادہ بھی کیا جو گذشتہ اپریل میں دستخط کیے گئے معاہدے کا نتیجہ ہے۔

مارچ میں آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانی نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنا پہلا سرکاری دورہ انڈیا کا کیا اور دونوں ممالک کے وزرائے اعظم نے دفاع اور سلامتی، اقتصادی تعاون، تعلیم اور دو طرفہ تجارت پر تبادلہ خیال کیا۔

عالمی پبلک پالیسی ریسرچ اور ایڈوکیسی گروپ سی یو ٹی ایس انٹرنیشنل کے ساتھ کام کرنے والے پردیپ ایس مہتا کہتے ہیں: ’وزیر اعظم اور وزراء کی متواتر ملاقات نے دو طرفہ تعلقات کو گہرا کیا ہے جو پہلے نہیں دیکھا گیا ہے۔‘

مبصرین کا کہنا ہے کہ اس شراکت داری کو دونوں ممالک کے سود مند کہا جا رہے ہے۔ یہ دونوں ممالک اس چار ملکی کواڈ گروپ کا بھی حصہ ہیں جس کا مقصد ہند-بحرالکاہل کے علاقے میں چین کے تسلط کو محدود کرنا ہے۔

ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان تعلق لاکھوں سال پرانا ہے کیونکہ گونڈوانا نامی براعظم کبھی جسمانی طور پر ایک ہوا کرتا تھا موجودہ دور کی قوموں کو جوڑتا تھا۔ بہر حال انڈینز کی آسٹریلیا ہجرت کرنے کی تاریخ بہت متنوع اور منقسم ہے۔ ابتدائی تارکین وطن سنہ 1800 کی دہائی میں ہندوستان سے آنے والی برطانوی رعایا تھے جو کہ مزدور یا نوکر کے طور پر آسٹریلیا پہنچے تھے۔

اس کے بعد سنہ 1900 کی دہائی میں ہندوستانیوں کی ایک وسیع رینج نے ہجرت شروع کی اور وائٹ آسٹریلیا کی پالیسی کے بعد ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا۔ وائٹ آسٹریلیا ایک نسل پرستانہ قانون تھا جو غیر سفید فاموں کی ہجرت کو محدود کرتا تھا لیکن اسے سنہ 1973 میں ختم کر دیا گیا۔

آسٹریلیا میں انڈین باشندوں پر ایک کتاب کے شریک مصنف اور محقق جینت باپت کہتے ہیں کہ ’اس کے بعد بھی، آسٹریلیا تارکین وطن کا خیرمقدم کرنے میں بہت محتاط رہا اور اس نے صرف ہنر مند تارکین وطن، جیسے کہ ٹیک ورکرز، ڈاکٹروں، نرسوں اور ماہرین تعلیم کا خیرمقدم کیا اور وہ بھی بہت چھوٹے پیمانے پر۔‘

اصل گیم چینجر سنہ 2006 میں آیا جب جان ہاورڈ کے زیرقیادت حکومت نے انڈین طلباء کے لیے آسٹریلیا کے دروازے کھول دیے اور ایسے پالیسی اقدامات متعارف کرائے جس سے ان کے لیے مستقل رہائش حاصل کرنا آسان ہو گیا۔

مسٹر باپت کہتے ہیں: ’انڈین طلباء اب بھی عارضی مہاجرین کا ایک بہت بڑا حصہ ہیں کیونکہ ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد ان میں سے بہت سے لوگوں کو آسٹریلیا میں آباد ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔‘

لیکن اس کی وجہ سے کشیدگی بھی رہی ہے۔ سنہ 2000 کی دہائی کے آخر میں، سڈنی اور میلبرن میں ہندوستانی طلباء پر متعدد پرتشدد حملے ہوئے جس نے عالمی سرخیاں بنائیں۔

اس کے خلاف سینکڑوں انڈین تارکین وطن احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے۔ انڈیا نے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور آسٹریلوی حکومت نے صورتحال سے نمٹنے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ تشدد کے اکا دکا واقعات اب بھی کبھی کبھار رپورٹ ہوتے ہیں۔

ہجرت کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایشیائی اور جنوبی ایشیائی ممالک سے آنے والے تارکین وطن آسٹریلوی معاشرے میں ضروری کثیر الثقافت جہت لاتے ہیں اور ان کی وجہ سے معیشت کی ترقی میں مدد ملی ہے۔ لیکن بعض اپوزیشن سیاست دانوں نے آسٹریلیا کی ہجرت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم اجرت والے تارکین وطن ملازمتیں چھین لیتے ہیں اور وسائل پر بوجھ بنتے ہیں۔

انڈین کمیونٹی کے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ آسٹریلیا میں رہنے والے لوگوں کو اپنی ثقافت اور ورثے کے بارے میں آگاہ کر کے آسٹریلیا کو مزید جامع بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

24 سالہ دیویا سکسینہ سڈنی میں پلی بڑھی ہیں۔ وہ آسٹریلیا میں ہندوستانی کلاسیکی رقص جیسے کتھک اور بھرت ناٹیم کو مرکزی دھارے میں لانا چاہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ سڈنی میں ان جیسے انڈین-آسٹریلین فنکاروں کی ایک پھلتی پھولتی کمیونٹی ہے جو جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے ارد گرد پھیلے ’دقیانوسی تصورات کو توڑنے‘ اور ایک دوسرے کے کاروبار کو سپورٹ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

سکسینہ نے حال ہی میں ایک انڈین-آسٹریلین میک اپ انفلوئنسر رووی سنگھ کے لیے ایک ڈانس روٹین کی کوریوگرافی کی ہے۔

سکسینہ کہتی ہیں: ’ہمارے والدین کی نسل نے یہاں بہت کم سے شروعات کی۔ ان کی توجہ مستحکم ملازمتوں میں رہنے پر مرکوز تھی تاکہ وہ اپنے بچوں کو بہتر زندگی دے سکیں۔ اس لیے انھوں نے سر نیچے کر کے گھلنے ملنے کی کوشش کی۔ لیکن میری نسل کے لوگ ایسا نہیں کرتے۔ ان پر ایسا بوجھ نہیں جسے اٹھانا ان کی مجبوری ہو۔

’ہم اپنے شوق کو پروان چڑھانے کے لیے آزاد ہیں، اور ہم میں سے بہت سے لوگ آسٹریلیا کو آنے والی نسلوں کے لیے مزید خوش آئند جگہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘