آسٹریلیا میں ایک پنجابی نژاد کالج طالبہ کے قتل کے کیس میں عدالتی سماعت کے دوران دل دہلا دینے والے انکشافات سامنے آئے ہیں۔
آسٹریلین براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے مطابق 22 سالہ طارق جوت سنگھ نے 21 سالہ نرسنگ کی طالبہ جیسمین کور کے قتل کا اعتراف کرلیا ہے۔
عدالت کو بتایا گیا ہے کہ ایڈیلیڈ سے تعلق رکھنے والے طارق جوت سنگھ نے اپنی سابقہ گرل فرینڈ کی جانب سے انھیں مسترد کیے جانے کے بعد اسے زندہ دفن کر دیا تھا۔ طارق جوت سنگھ نے انھیں زندہ دفن کرنے سے قبل ٹیپ اور تاروں سے باندھا تھا۔
سرکاری وکیل نے کیا کہا؟
اے بی سی نیوز کے مطابق، جنوبی آسٹریلیا کی سپریم کورٹ میں تحریری سزا کے دلائل دیتے ہوئے سرکاری وکیل کارمین میٹیو ایس سی نے کہا کہ طارق جوت سنگھ نے اپنی سابقہ گرل فرینڈ کی جانب سے مسترد کیے جانے کے بعد بدلہ لینے کے لیے خاتون کو قتل کیا۔
انھوں نے بتایا کہ ملزم طارق سنگھ نے مارچ 2021 میں مقتولہ کوان کے دفتر سے اغوا کرنے سے پہلے قتل کی منصوبہ بندی کی تھی۔
جیسمین کور کی لاش مورلانا کریک میں ایک قبر میں دفن پائی گئی تھی۔ ان کے ہاتھ ان کی پشت پر ایک تار کے ساتھ بندھے ہوئے پائے گئے۔ ان کے پاؤں ٹیپ اور تار سے بندھے ہوئے تھے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ انھیں زندہ دفن کیا گیا تھا۔
قتل کا اعتراف اور سزا
طارق جوت سنگھ نے عدالت میں پوچھ گچھ سے قبل اپنے خلاف الزامات کا اعتراف کیا تھا۔ یہ یقینی ہے کہ انھیں اس قتل کے جرم میں عمر قید کی سزا سنائی جائے گی لیکن عدالت ان کی پیرول کو بھی روک سکتی ہے۔
طارق جوت سنگھ نے اعتراف کیا کہ انھوں نے مارچ 2021 میں جیسمین کور کو قتل کیا تھا۔
بدھ کو سزا سنانے کے لیے تحریری اپیل میں جرم کی تفصیلات پیش کی گئیں۔
پراسیکیوٹر کارمین میٹیو ایس سی نے کہا کہ جیسمین کور کو طارق جوت نے پانچ مارچ 2021 کو ایڈیلیڈ میں ان کے کام کی جگہ سے اغوا کیا تھا۔
یاسمین کور کو کیا اذیتیں برداشت کرنا پڑیں؟
عدالت کو بتایا گیا کہ جیسمین کور کو ’غیر معمولی ظلم‘ کا سامنا کرنا پڑا۔ انھیں ان کے سابق بوائے فرینڈ نے اغوا کیا تھا، اسے ٹیپ اور تاروں سے باندھ کر زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔
وکیل نے بتایا کہ طارق جوت نے ان کا گلا بھی کاٹا لیکن انھیں جان سے نہیں مارا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی موت چھ مارچ 2021 کو ہوئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ سنگھ نے ان کے تعلقات ختم ہونے کے بعد جیسمین کور کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
’یہ نہیں معلوم کہ ان کا گلا کب کاٹا گیا، یہ معلوم نہیں کہ وہ کب اور کیسے قبر تک پہنچی اور یہ بھی معلوم نہیں کہ انھیں کب دفنایا گیا تھا۔‘
استغاثہ کا کہنا ہے کہ جس وقت انھیں دفن کرنے کی تیاری کی جا رہی تھی وہ زندہ تھیں۔ ’یہ ایک قتل تھا، جس کا ارتکاب انتقام کے طور پر کیا گیا تھا۔‘
قتل سے پہلے ہراساں کیا
میٹیو نے عدالت کو بتایا کہ نو فروری کو جیسمین کور نے پولیس رپورٹ درج کرائی تھی، جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انھیں ہراساں کیا جا رہا ہے۔ یہ ان کے قتل سے تقریباً ایک ماہ پہلے کی بات ہے۔
انھوں نے کہا کہ طارق جوت سنگھ نے انھیں کئی پیغامات بھیجے تھے۔ ان پیغامات میں کہا گیا تھا ’تمہاری بدقسمتی کہ میں ابھی زندہ ہوں، انتظار کرو اور دیکھو۔۔۔ جواب آئے گا.. سب کو جواب ملے گا۔‘
قتل کی رات کاروں کا تبادلہ
معلومات کے مطابق قتل کی رات طارق جوت سنگھ نے کاروں کا تبادلہ کیا تھا۔ استغاثہ نے عدالت کو بتایا کہ اس نے جیسمین کے اغوا سے ایک دن قبل ایڈیلیڈ میں سکیورٹی کیمروں کا نقشہ ڈاؤن لوڈ کیا تھا۔
میٹیو نے کہا کہ سکیورٹی کیمروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے اغوا کی دوپہر کو ایک ہارڈویئر سٹور سے کیبل ٹائی خریدی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ملزمان نے ان کے فون سے سم کارڈ بھی نکال دیا تھا۔ اسے ایک مختلف فون میں رکھا اور گھر پر چھوڑ دیا۔
اغوا کی رات طارق جوت سنگھ نے اپنی کاراپنے فلیٹ میٹ کے ساتھ بدلی اور اسے اپنی شفٹ میں کام کرنے کو کہا۔
جب چھ مارچ کو پولیس نے ان سے پہلی بار پوچھ گچھ کی تو اس نے کہا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے آخری بار جیسمین کور کو کب دیکھا تھا لیکن وہ قتل کی رات گھر پر تھا۔
ایک دن بعد، اس نے پولیس افسران کو بتایا کہ جیسمین نے خودکشی کی ہے اور اسے فلنڈرز رینج میں دفن کر دیا ہے۔
وہ پولیس کو تدفین کے مقام پر لے گیا، جہاں افسروں کو اس کے جوتے، شیشے اور کام کے بیج کے ساتھ ساتھ ایک کوڑے دان میں تاریں ملیں تھیں۔
طارق جوت کے وکیل مارٹن اینڈرس نے بتایا کہ قتل سے دو ماہ قبل طارق جوت سنگھ اور جیسمین کور کے اہل خانہ نے ایک میٹنگ بھی کی تھی۔
وکیل اینڈرس نے کہا کہ سنگھ کی دماغی صحت خراب تھی اور وہ وہم میں مبتلا ہونے لگے تھے۔
انھوں نے کہا کہ طارق جوت سنگھ کے مستقبل میں جرائم کرنے کا خطرہ کم ہے۔ جسٹس کمبر نے انھیں عمر قید کی سزا سنائی، اور اگلے چھ ماہ تک انھیں ضمانت بھی نہیں مل سکتی۔
آسٹریلیا میں پنجابی کمیونٹی
سنہ 2016 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق پنجابی کمیونٹی آسٹریلیا میں سب سے تیزی سے بڑھنے والی کمیونٹی ہے، جہاں ایک لاکھ 32 ہزار 499 افراد نے پنجابی کو اپنی مادری زبان کے طور پر رجسٹر کرایا ہے۔
سنہ 2011 میں یہ تعداد صرف 71,230 اور سنہ 2006 میں 26,000 تھی۔ مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ 10 سالوں میں اس تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہوا ہے۔
جیوتی سینی تقریباً 15 سال قبل سٹڈی ویزا پر آسٹریلیا آئی تھیں اور اب وہ اپنے شوہر اور بچے کے ساتھ یہاں مستقل طور پر آباد ہو گئی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ اضافہ پنجابی نوجوانوں کی بڑی تعداد میں سٹڈی ویزے پر ملک میں آنے کی وجہ سے ہوا ہے۔