’کشمیر میں صورتحال اس وقت ویسی نہیں ہے جیسی دنیا کو دکھائی جا رہی ہے۔ سینکڑوں کشمیری نوجوانوں کو اُن کے گھروں سے ہزاروں میل دُور بریلی، آگرہ، جودھپور، دلی، الہ آباد اور دوسرے شہروں کی جیلوں میں قید کیا گیا ہے۔ حکومت پر تنقید کرنا جمہوریت کا حصہ ہے، لیکن یہاں بات کرنے پر جیل ہو جاتی ہے۔ ٹھیک ہے سیاح آ رہے ہیں، امن و قانون کی صورتحال بہتر ہے، اگر سب ٹھیک ہو چکا ہے تو لوگوں کے جمہوری حقوق تو بحال کیجیے۔‘
یہ کہنا ہے کہ انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ممبر پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی کا۔ وہ کہتے ہیں کہ جموں کشمیر پورے انڈیا میں وہ واحد خطہ ہے جہاں پانچ سال سے صرف ایک لیفٹیننٹ گورنر اور چند بیوروکریٹ براہ راست انڈین وزیر داخلہ کی نگرانی میں انتظامیہ چلا رہے ہیں۔
’لوگ ڈرے ہوئے ہیں، خاموش ہیں، اس کو ہم نارمیلسی (معمول کی صورتحال) نہیں کہہ سکتے۔ اگر نارمیلسی ہے تو پھر الیکشن کیوں نہیں ہو رہے۔ ان لوگوں (بی جے پی) کو لگا تھا کہ یہاں بلدیاتی اور گاؤں کی سطح پر کونسلوں کے انتخابات کرکے وہ اپنے حق میں ریفرینڈم حاصل کر لیں گے ، لیکن ان انتخابات میں کشمیری جماعتوں نے اکثریت لے لی، اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ کشمیری دفعہ 370 کی بحالی چاہتے ہیں۔‘
جسٹس (ر) مسعودی انڈین سپریم کورٹ میں دفعہ 370 کے خاتمے کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں میں شامل ہیں۔
انڈیا کی سپریم کورٹ دو اگست یعنی آج سے روزانہ کی بنیاد پر تقریباً دو درجن ایسی درخواستوں پر سماعت کا آغاز کرے گی جن میں استدعا کی گئی ہے کہ کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلق 5 اگست 2019 کو لیے گئے انڈین حکومت کے فیصلے کو ’غیر قانونی‘ اور ’غیر آئینی‘ قرار دیا جائے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت یعنی دفعہ 370 کو بحال کیا جائے۔
انڈین سپریم کورٹ میں پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کے پاس زیرسماعت اس کیس کا جو پہلو سب سے زیادہ حوصلہ افزا ہے وہ یہ ہے کہ گذشتہ سماعت کے دوران عدالتِ عظمیٰ نے مودی حکومت کے اُس بیان حلفی کو بحث سے خارج کر دیا تھا جس کے مطابق دفعہ 370 کے خاتمہ سے کشمیر میں دہشت گردی ختم ہوئی ہے اور امن اور ترقی کا دور شروع ہو گیا ہے۔
درخواست گزاروں کا استدلال ہے کہ جب دفعہ 370 کو ختم کرنے کا فیصلہ لیا گیا تب جموں کشمیر میں کوئی عوامی حکومت نہیں تھی۔ واضح رہے 2018 میں ہی بی جے پی نے محبوبہ مفتی کی قیادت والی حکومت سے حمایت واپس لے لی تھی اور جموں کشمیر میں صدارتی راج نافذ کر دیا تھا۔
کشمیر کے تین منتخب ممبران پارلیمان، انڈین آرمی اور انڈین فضائیہ کے سابق افسروں اور سماجی رضاکاروں کی طرف سے سپریم کورٹ میں داخل ان آئینی درخواستوں میں سوال اُٹھایا گیا ہے کہ کیاکشمیریوں کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ کو یکطرفہ طور ایسا فیصلہ لینے کا اختیار تھا یا نہیں؟
انڈین سپریم کورٹ پہلے ہی یہ واضح کر چکی ہے کہ یہ معاملہ کسی بڑے یا لارجر بینچ کو ریفر نہیں ہو سکتا، لہذا آج سے شروع ہونے والی سماعت پر اب سب کی نظریں مرکوز ہیں۔
دفعہ 370 انڈین آئین میں شامل کیسے ہوئے اور پھر اس کا خاتمہ کیوں ہوا؟
اگست 1947 میں برٹش انڈیا کی تقسیم کے وقت جموں کشمیر میں ڈوگرہ مہاراجہ ہری سنگھ کی حکومت تھی اور انھیں انڈیا کے ساتھ الحاق میں تحفظات تھے۔ تاہم جب پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشمیر کی سرحدوں پر جنگ چھِڑ گئی اور دو تہائی کشمیر پر پاکستان کا قبضہ ہو گیا تو مہاراجہ نے نہ صرف انڈین فوج سے مدد طلب کی بلکہ تین شرائط پر انڈیا کے ساتھ الحاق کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔
الحاق کے مطاق جموں کشمیر کی کرنسی، دفاع اور مواصلات انڈین کنٹرول میں ہوں گے جبکہ مقامی قانون سازی، ٹیکس اور دوسرے سبھی امور پر کشمیریوں کا اختیار ہو گا۔ جموں کشمیر کا سِول حکمران ’وزیراعظم‘ جبکہ گورنر ’صدرِ ریاست‘ کہلایا جانے لگا۔
لیکن 1953 میں کشمیر کے پہلے ’وزیراعظم‘ شیخ محمد عبداللہ کو اُس وقت کے انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے معزول کرکے جیل بھیج دیا اور کشمیر میں دلّی کے حامی بخشی غلام محمد کو حکمران بنا دیا۔ کشمیر میں افراتفری کا عالم تھا اور اسی بیچ جواہر لعل نہرو کی سفارش پر صدارتی آرڈر کے ذریعہ انڈین آئین میں دفعہ 370 کو شامل کیا گیا۔
اس دفعہ کے تحت جموں کشمیر کا اپنا علیٰحدہ آئین ہو گا، ٹیکس نظام الگ ہو گا، یہاں کی نوکریاں صرف یہاں کے مستقل باشندوں کے لیے مخصوص ہوں گی، انڈیا کے کسی بھی علاقے کا کوئی بھی باشندہ نہ یہاں ملازمت حاصل کر سکتا تھا، نہ زمین خرید سکتا تھا اور نہ ہی ووٹ ڈال سکتا تھا۔ حالانکہ دیگر انڈین ریاستوں کی طرح اب جموں کشمیر کا بھی باقاعدہ گورنر اور وزیراعلیٰ تھا ، لیکن ایک طرح کی نیم خودمختاری تھی، جسے ہٹانے کا عزم انتہاپسند قوم پرست جماعت بی جے پی نے کئی دہائیاں قبل کر لیا تھا۔
سنہ 2014 میں بی جے پی کے مرکزی رہنما نریندر مودی ملک کے وزیراعظم بن گئے تو بی جے پی رہنماؤں نے اعلان کیا کہ دفعہ 370 ختم کرکے ’مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کیا جائے گا۔‘ چنانچہ 2019 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے صرف دو ماہ بعد پارلیمنٹ میں وزیر داخلہ نے ’جموں کشمیر تنظیم نو‘‘ عنوان سے بل پیش کیا جو اکثریت سے پاس ہو گیا۔
اس بل کے مطابق جموں کشمیر سے لداخ کا خطہ الگ کرکے اُسے بغیر اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا جبکہ جموں کشمیر کو اسمبلی والی یونین ٹیریٹری بنایا گیا۔ لیکن یہ اعلان کرنے سے دو روز قبل کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، ٹیلیفون، موبائل فون اور انٹرنیٹ سہولیات معطل کی گئیں اور سبھی سیاسی لیڈروں کو قید کر دیا گیا۔
یہ سلسلہ چند ماہ تک جاری رہنے کے بعد زندگی بحال تو ہوئی تاہم جموں کشمیر کا آئین منسوخ کیا گیا اور وفاق کے 800 سے زیادہ نئے قوانین کشمیر میں نافذ ہو گئے۔ اس اعلان سے چند سال قبل ہی علیحدگی پسند جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا تھا اور ان کی لیڈرشپ جیلوں میں قید تھی جبکہ ہندنواز رہنماؤں کو بھی سرکاری گیسٹ ہاؤسوں میں نظر بند کیا گیا تھا۔
معاملہ سپریم کورٹ کیسے پہنچا؟
تاہم جموں کشمیر کے تین ممبران پارلیمنٹ جسٹس (ر) حسنین مسعودی، فاروق عبداللہ اور محمد اکبر لون نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو چیلنج کیا۔ بعد میں اس ضمن میں مزید کئی درخواستیں داخل کی گئیں جن میں استدعا کی گئی کہ اس فیصلے کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا جائے کیونکہ اس میں کشمیریوں کی رائے شامل نہیں تھی۔
ایک سال بعد ان درخواستوں پر سماعت کا آغاز ہوا تو یہ معاملہ سپریم کورٹ کے پانچ ججوں پر مشتمل آئینی بینچ کو منتقل کیا گیا۔ اسی آئینی بینچ نے گذشتہ سماعت کے دوران مودی حکومت کے اُس بیان حلفی کو بحث سے خارج قرار دیا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دفعہ 370 ہٹنے سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہوا اور کشمیر میں ترقی اور خوشحالی کا دور شروع ہوا۔ عدالت نے کہا کہ وہ اس معاملہ کے آئینی اور قانونی جواز پر بحث کو سنے گی نہ کہ اس کے سیاسی نتائج پر۔
دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد چار سال
تجزیہ کاروں کے مطابق کشمیر میں گزشتہ چند برسوں سے حالات بظاہر پرسکون ہیں۔ آئے روز ہڑتالوں، پتھراؤ اور مظاہروں کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے کیونکہ علیحدگی پسند سیاست منظر سے ہی ہٹائی گئی ہے، اس لئے سال بھر تعلیمی اور تجارتی سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، سیاحوں کی آمد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور کھیل کود کی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔
حکومت کے کسی بھی فیصلے پر کسی طرح کا کوئی ردعمل دیکھنے کو نہیں ملتا ہے اور سوشل میڈیا سے لے کر گلی محلوں تک حکومت کا ’مکمل کنٹرول‘ ہے۔ سڑکوں، پُلوں اور سرنگوں کا کام تیزی سے جاری ہے اور اس دوران انڈیا نے G20 ممالک کے مندوبین کے کئی اجلاس سرینگر میں منعقد کرکے یہ دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر اب ’علیٰحدگی پسندی اور شدت پسندی سے پاک‘ ہو گیا ہے۔
دفعہ 370 ہٹانے کے بعد مودی حکومت نے دعویٰ کیا تھا کہ جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر بیرونی سرمایہ کاری ہو گی اور صرف چھ ماہ کے اندر پچاس ہزار نوکریاں فراہم کی جائیں گی اور کشمیری بھی انڈیا کے شانہ بہ شانہ ترقی کریں گے۔ لیکن طویل قدغنوں کے بعد جب زندگی بحال ہو گئی تو سرکاری تعیناتیوں سے متعلق ایک کے بعد ایک سکینڈل سامنے آئے۔
حکومت کو کم از کم ایسی چار فہرستوں کو کالعدم کرنا پڑا جن میں کرپشن اور چور دروازے سے تعیناتی کے انکشافات ہوئے تھے۔ بیرونی سرمایہ کاری کے لیے جس گلوبل انوسٹر سَمِٹ کو نومبر 2019 میں کرنے کا اعلان کیا گیا تھا وہ ابھی تک نہیں ہو سکا ہے۔ تاہم حکومت کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں کروڑ مالیت کے سرمایہ کاری منصوبے حکومت کو موصول ہوئے ہیں اور ان پر کام ہو رہا ہے۔
تاہم جسٹس مسعودی اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ سپریم کورٹ میں زیر سماعت کیس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پُراُمید ہیں، لیکن اگر عدالت میں ہم ہار بھی گئے، ہم سیاسی جدوجہد جاری رکھیں گے، شمال مشرقی ریاستوں کو جو کچھ ملا ہے وہ سیاسی جدوجہد سے ملا ہے، عدالت سے نہیں ملا۔‘
کیا کشمیر میں سکیورٹی صورتحال واقعی بہتر ہوئی ہے؟
سنہ 2019 میں دفعہ 370 ہٹ جانے کے صرف سات ماہ بعد ہی انڈیا اور پاکستان کی افواج نے 20 سال قبل ہوئے سیز فائر معاہدے کو سختی سے نافذ کرنے کا نیا معاہدہ طے کیا اور لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی افواج فروری 2020 سے خاموش ہیں اور گولہ باری کا سلسلہ بند ہو گیا ہے۔ ایل او سی کے قریبی علاقوں میں عام زندگی پُرسکون ہے اور لوگ کھیتی باڑی اور دوسری سرگرمیاں بغیر کسی خوف یا خطرے کے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد جموں کشمیر میں بڑے پیمانے پر مسلح شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کیا گیا اور پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ تین سال کے دوران 500 سے زیادہ شدت پسند مارے گئے ہیں۔ اسی دوران کشمیری بولنے والے ہندوؤں (کشمیری پنڈت) پر کئی حملے ہوئے جن میں کم از کم 9 افراد مارے گئے۔ ان میں زیادہ تر وہ کشمیری پنڈت تھے جنھیں وزیراعظم پیکیج کے تحت گذشتہ کئی برسوں کے دوران واپس کشمیر لایا گیا، یہاں محفوظ کیمپوں میں رکھا گیا اور انھیں نوکریاں دی گئیں۔
پولیس کے مطابق ان حملوں کے بعد پانچ ہزار سے زیادہ ایسے کشمیری پنڈت کئی ماہ تک سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے اور بیشتر ایک بار پھر کشمیر چھوڑ کر چلے گئے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ان حملوں میں ملوث شدت پسندوں کو مختلف جھڑپوں میں ہلاک کیا گیا ہے تاہم اقلیتی فرقے میں عدم تحفظ کا احساس مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔
سپریم کورٹ میں کیا ہو سکتا ہے؟
سپریم کورٹ دفعہ 370 کے مقدمے کو پیر اور جمعہ کو چھوڑ کر روزانہ کی بنیادوں پر سُنے گی۔ یہاں کے قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ کیس میں تاخیر کا امکان نہیں ہے کیونکہ عدالت پہلے ہی واضح کر چکی ہے کہ یہ کیس کسی بڑے بینچ کو ریفر نہیں کیا جائے گا بلکہ اسے پانچ رکنی آئینی بینچ ہی سنے گا۔
جسٹس (ر) مسعودی کا کہنا ہے ’ہمارے دلائل ٹھوس ہیں۔ ہم اُسی آئین کا حوالہ دے رہے ہیں جس کے تحت یہ فیصلہ لینے کا دعویٰ کیا گیا۔ بحث طویل ہوسکتی ہے مگر ہم کو ملک کی عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے۔‘
تاہم غیرجانبدار حلقوں کا کہنا ہے کہ دفعہ 370 کو آئین سے ہٹانا بی جے پی کے اہم ترین نعروں میں شامل رہا ہے اور اس کے خاتمے کو بڑے پیمانے پر حکومت کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جا چکا ہے۔
تجزیہ نگار ہارون ریشی کہتے ہیں کہ ’عدلیہ پر حکومت کا اثر تو نہیں ہونا چاہیے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ کسی تکنیکی پہلو پر یہ سماعت تاخیر کا شکار بھی ہو سکتی ہے، کیونکہ اگلے سال کے الیکشن میں نریندر مودی دوبارہ کامیابی کی توقع کر رہے ہیں، ایسے اتنے بڑے فیصلے کی عدالت میں ہار ایک سیاسی دھچکہ بھی ہو سکتا ہے۔‘