کسی ملازمت کو جھگڑے کے بعد چھوڑنا یا اس کے بعد اپنے آجر کے بارے میں بری باتیں کہنا پیشہ ورانہ لحاظ سے کافی برا سمجھا جاتا رہا ہے۔ لیکن اب شاید زمانہ بدل رہا ہے۔
ایبی (ایک حقیقی شخصیت مگر فرضی نام) کو وہ لمحہ اب بھی یاد ہے جب وہ امریکہ کے ایک میگزین میں بحث مباحثے کے ایک سیشن میں حصہ لے رہی تھیں۔ وہ وہاں ایڈیٹر تھیں اور آئیڈیاز کی ایک فہرست کے ساتھ میٹنگ میں آئی تھیں۔ لیکن انھیں ایسے لگا کہ جب بھی انھوں نے بولنے کی کوشش کی تو انھیں روک دیا گیا۔
ان حالات کی وجہ سے ایبی کی مایوسی میں مزید اضافہ ہوا۔ آخر کار ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ وہ اُسی سیشن کے دوران کہنے لگی کہ ’کیا میں اپنی سوچ ختم کر سکتی ہوں؟‘ وہ یاد کرتی ہے کہ اُن کے یہ الفاظ کہنے کے بعد کمرے میں ایک خاموشی چھا گئی۔ وہ کہتی ہے اگلے دو دنوں تک ان سے کسی نے کوئی خاص بات نہیں کی۔ تیسرے دن اُنھیں ہیومن ریسورس کے محکمے سے فون آیا۔
خبر بری تھی کیونکہ انھیں پتہ چلا کہ وہ اپنی نوکری کھو دیں گی۔ ان کا ماننا ہے کہ کانفرنس روم میں جو ان کی بات چیت کا انداز تھا اس کا حالات کے بگڑنے میں ایک اہم عنصر تھا۔ اپنے غصے پر قابو نہ پانے کی وجہ سے انھوں نے اپنے لیے جو کشتیاں بنائی تھیں وہ خود ہی جلا ڈالی تھیں اور انھیں لگا کہ انھوں نے انڈسٹری میں ’اپنے کیریئر کو بھی تباہ کر دیا ہے۔‘
پیشہ ورانہ زندگی میں اپنی ’کشتیاں جلانے‘ کا عمل یعنی پیچھے مُڑ کر نہ دیکھنے کا عمل کئی طریقوں سے ہو سکتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لیے جیسا کے ایبی کے معاملے میں ہوا ہے، اس کا مطلب نوکری میں رہتے ہوئے بھی تناؤ پیدا کرنا ہو سکتا ہے۔ جبکہ دوسروں کے لیے اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ بغیر اطلاع کے ملازمت چھوڑ دینا، کسی سابق آجر کی سرعام تذلیل کرنا یا کوئی ایسا عمل جو پیشہ ورانہ تعلقات کو مستقل طور پر تباہ کر دیتا ہے۔ اس طرح کے کسی عمل کو کافی عرصے سے اپنے پیشہ ورانہ کیریئر کو تباہ کرنا سمجھا جاتا رہا ہے۔
یعنی ایک ایسا عمل جو جاب مارکیٹ میں ایک ملازم کی اپنی ساکھ کو تباہ کر سکتا ہے، اور خاص طور پر مسابقتی صنعتوں میں اس کے لیے روزگار تلاش کرنا مشکل بنا سکتا ہے۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ کام کی جگہ کی ترجیحات کو تبدیل کرنے کے وقت میں کشتیاں جلانا پیشہ ورانہ زندگی کے تابوت میں آخری کیل ثابت نہیں ہوتا ہے۔
چونکہ ملازمین کے اپنے کام کی جگہ کے مسائل اور ملازمت کے برے ماحول کے بارے میں آواز بلند کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے اس لیے ملازمت کی ایسی جگہوں کے منفی پہلوؤں کے بارے میں کھل کر بات چیت کرنا زیادہ معمول بنتا جارہا ہے اور ایسا کرنا پیشہ ورانہ طور پر کم نقصان دہ ہوتا جا رہا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ نہ صرف کشتیاں جلانا ایک زیادہ ممنوع عمل نہیں سمجھا جا رہا ہے بلکہ اس وجہ سے بعض معاملات میں ایسے اعمال جو پہلے کیریئر کو تباہ کردینے کے مترادف سمجھے جاتے تھے، بلکہ اب یہی باتیں کام کی جگہ کو بہتر سے بہتر کرنے کے لیے ضروری ہو سکتی ہیں۔
ماحول کو تحفظ دینا
شاید اس محاورے کی تاریخ ‘اپنی کشتیوں کو جلانا‘ رومیوں کی فوجی حکمت عملی میں بنتی ہو جو غیر ملکی سرزمین میں داخل ہو جاتی ہے اور پھر اپنے پیچھے واپسی کے تمام راستے ختم کردیتی ہے، یعنی اب پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ ممکن ہی نہیں رہتا ہے۔
کام یا ملازمت کے تناظر میں اس کا مطلب ہے کسی رشتے کو اس حد تک نقصان پہنچانا کہ آپ پیشہ ورانہ طور پر اس سے مستقلاً الگ ہو جائیں، چاہے اس کا مطلب ایک اچھے ملازم کے طور پر آپ کی ساکھ کو نقصان ہی کیوں نہ پہنچے، یا آپ اپنے قیمتی تعلقات کھو دیں جن کی وجہ سے آپ کو اپنے آئندہ کے کیریئر میں نقصان پہنچ سکتا ہو۔
بعض صورتوں میں یہ درست اقدام ہو سکتا ہے مثال کے طور پر ایک ملازم جسے ملازمت چھوڑتے وقت برے کردار کا سرٹیفیکیٹ دیا گیا ہو، اُسے کسی ایسی نئی کام کی جگہ پر جہاں پچھلی ملازت والی جگہ کے ساتھی اب کام کرتے ہیں، اُس کی نوکری حاصل کرنے کی صلاحیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
اس کے باوجود ایک امریکی کارپوریٹ کنسلٹنسی کی ’ایلا‘ کی سی ای او اور بانی، ایرن گیلاگھر کہتی ہیں کہ یہ اصطلاح نہ صرف ’ڈرامائی‘ ہے، بلکہ جدید کارکنوں کے اہداف کے ساتھ بھی لگّاؤ نہیں کھاتی ہے، جو صحت مند کام کی جگہوں کو ترجیح دیتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ کشتیاں نہ جلانے کا بنیادی خیال ملازم اور ان کے مستقبل میں اُسی جگہ دوبارہ ملازمت کے امکانات کی حفاظت کرنا ہے، تاہم یہ ایک بُرے آجر کو تحفظ بھی دے سکتا ہے۔ پیشہ ورانہ اثرات کا یہ خوف بالآخر کارکنوں کو ’خاموشی‘ اختیار کرنے پر مجبور کر سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ کام کا خراب ماحول بغیر کسی نتیجے کے برداشت کرنا ہو سکتا ہے۔
گیلاگھر کا کہنا ہے کہ ’یہ ساختی تبدیلی کے لیے ان تمام مختلف رکاوٹوں کو قائم کرتا ہے، اور لوگوں کے لیے سچ بتانا واقعی مشکل بنا دیتا ہے۔‘ کشتیاں جلانے جانے کے خوف نے ایک پبلک ریلیشنز کمپنی کی ملازم، کرسٹن (فرضی نام) کو کام کی جگہ کی بڑی ثقافت کے خلاف کام کرنے سے روک دیا جسے وہ اپنی معذوری کی وجہ سے اپنے ساتھ امتیازی سلوک محسوس کرتی تھی۔
2016 میں وہ ایک نئی نوکری کے لیے نیویارک چلی گئی، اور انھیں اپنی ملازمت کے آغاز کی تاریخ کو تبدیل کرنا پڑا تھا کیونکہ وہ اپنے لیے اپنی ضروریات کے مطابق رہائشی اپارٹمنٹ تلاش کرنے کے لیے کافی تگ و دو کر رہی تھی۔ وہ کہتی ہے کہ ان کے مینیجر نے ان سے پوچھا کہ اگر اُن کے لیے سفر کرنا اتنا مشکل ہے تو وہ شہر میں کیوں رہنا چاہتی ہے، اور اسے بار بار بتایا کہ وہ ’خوش قسمت‘ ہے کہ کبھی کبھار گھر سے کام کرنے کا موقع بھی ملے گا، حالانکہ یہ تمام سہولیاتی انتظامات اس کے قانونی طور پر لازمی معذوری کے معاہدوں کا حصہ تھے۔
کرسٹن کا کہنا ہے کہ اس نے آجر کے اس رویے کو برداشت کیا جو اس کے خیال میں ہراساں کرنے کے زمرے میں آتا تھا کیونکہ اسے ہیلتھ انشورنس کے حصول کے لیے اپنے آجر کی ضرورت تھی۔ بالآخر جب اس نے سنہ 2018 میں یہ ملازمت چھوڑی، اس نے روایتی مشورے پر عمل کیا اور مینجر یا کمپنی کے ساتھ تعلقات ختم نہیں کیے، یعنی اپنی کشتیاں نہیں جلائیں۔
یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس پر اسے آج بھی افسوس ہے۔ کرسٹن اب کہتی ہیں کہ ’میری خواہش تھی کہ میں اپنے حقوق کے لیے زور دار طریقے سے آواز اٹھاتی۔ نہ بولنے کی وجہ سے ’اس نے میری خود اعتمادی کو نقصان پہنچایا۔ جب آپ کچھ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے ہیں تو آپ اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرتے ہیں۔‘
ایرن گیلاگھر اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ کارکن اس طرح محسوس کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’جب ہم اس روایتی مشورے پر عمل کرتے ہیں، لیکن ہم پھر بھی اپنے کام کی جگہ کے برے ماحول پر کچھ نہیں کر پاتے ہیں تو ہم کبھی بھی پوری طرح اس کے عذاب سے باہر نہیں نکل پاتے ہیں۔‘ ’مجھے لگتا ہے کہ ہمیں اس اصطلاح یعنی ‘کشتیاں جلانا’، کو نئے معنی دینا ہوگا، کیونکہ اس کا ایک منفی مفہوم ہے۔
اس کے بجائے ہمیں پوچھنا چاہیے کہ ‘کیا آپ کسی ایسی جگہ سے جڑے رہنا چاہتے ہیں جس سے آپ کو نقصان پہنچے؟ اور کیا آپ دوسرے لوگوں کے لیے اس نقصان کے تسلسل کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟‘
ایک ’انسانیت آموز‘ عمل
سنہ 2018 میں کرسٹن نے محسوس کیا ہو گا کہ وہ اپنی خاطر ایک کشتی کو جلانے کی کوشش نہیں کر رہی تھی – لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ماحول میں ایسے طریقوں سے بات کرنا ممکنہ طور پر کم نقصان دہ ہے جِسے ماضی میں کیریئر کے خاتمے کے طور پر سمجھا جاتا تھا۔
ایک مقرر اور کتاب کی مصنفہ، سارہ ایویرام بتاتی ہیں کہ کوویڈ کے وبائی دور میں کارکنوں کی زندگی کے بہت سے حصے ان کے قابو سے باہر تھے۔
وہ کہتی ہے ہے کہ ’بہت سے لوگوں نے محسوس کیا کہ ملازمت کے پراگندہ ماحول میں کام کرنا، ایسا کام کرنا جس سے آپ نفرت کرتے ہیں یا کسی خوفناک باس کے لیے کام کرنا اس کے قابل نہیں ہے۔ ان کی ترجیحات بدل گئیں۔ وہ زیادہ معنی اور مقصد کے ساتھ کام کے مواقع چاہتے ہیں اور شاید ایک سے بھی وہ لطف اندوز ہو سکیں۔‘ زندگی بدل دینے والے استعفیٰ کے وقت جاب مارکیٹ اتنی زیادہ بہتر ہو چکی تھی کہ لوگ اپنی سابقہ کمپنی سے تعلقات کی کشتیاں جلانے کے بارے میں کم فکر مند تھے۔‘
اب ایویرام کہتی ہے کہ یہاں تک کہ جب ملازمت کی جگہوں پر انتظامیہ کی طاقت کا اثر تبدیل ہو رہا ہے، ملازمین اب بھی ایسی ملازمتوں میں رہنا چاہتے ہیں جن کی وہ قدر کرتے ہیں اور جہاں وہ اپنی قدر محسوس کرتے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ ’میرے خیال میں ایک نئی شروعات اور نئی شروعات کے بارے میں ایک ایسا بیانیہ بن رہا ہے جسے عالمی سطح پر بہت سے لوگ سمجھ رہے ہیں۔ لہذا مجھے لگتا ہے کہ مستقبل کا آجر نوکری کے امیدوار کی اس داستان کو پوری طرح سمجھ سکتا ہے۔ وہ اس امیدوار کی ایمانداری، خوش نہ ہونے کے بارے میں ان کے انکشاف اور فرد کے لیے ترجیحات میں تبدیلی کو بہتر انداز میں سمجھیں گے۔‘
ایویرام کہتی ہے کہ بعض اوقات بھرتی کرنے والے مینیجر ان کارکنوں کا احترام بھی کر سکتے ہیں جو منفی تجربات سے گزر کر زیادہ سمجھدار ہو چکے ہیں۔ وہ کہتی ہے کہ ’ان تجربات کو نجی طور پر شیئر کرنا، یہاں تک کہ ایک ممکنہ نئے آجر کے ساتھ انٹرویو میں بھی ان کا ذکر کرنا، آپ کو ایک حقیقی انسان بناتا ہے اور کمپنی کے اپنے ماحول میں اس مباحثے کی گنجائش پیدا کرتا ہے کہ آپ کس قسم کی کمپنی کی اقدار اور ثقافت کو آگے بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
بنیادی فرق
پھر بھی ہر منفی تبصرہ شاید نتائج نہ برآمد کر پائے۔ ایویرام ذاتی رنجشوں پر توجہ مرکوز کرنے یا آپ کے سابق آجر کی بار بار توہین کرنے کے خلاف مشورہ دیتی ہے۔
وہ کہتی ہے کہ سابق آجر کے بارے میں سرعام تبصرے کرنے اور منفی تجربات سمیت اپنے تجربے کے بارے میں آزادانہ اور ایمانداری سے بات کرنے کے درمیان ایک فرق ہے۔
اس کے علاوہ ماہرین اور ملازمین دونوں ہی احتیاط کرتے ہیں کہ لوگوں کو کشتیاں جلانے کے ممکنہ ذاتی نقصان پر بھی غور کرنا چاہیے۔
ایبی کے لیے یہ اس کا تجربہ انتہائی دباؤ والا تھا۔ جب اس کے مینیجر کے ساتھ کشیدگی بالآخر اُن کے سر تک پہنچ گئی تو اُس کے لیے اطمینان کی ایک چھوٹی سی کھڑکی تھی، جس کے فوراً بعد گھبراہٹ کا مرحلہ تھا۔ ایبی کہتی ہے کہ ’’میں اپنے آپ پر بہت غصے میں تھی۔ ’میں نے سوچا کہ میں اس ملازمت سے بہتر کبھی کوئی اور ملازت حاصل نہیں کر پاؤں گی۔‘
یون ریمپلنگ جو لندن میں ’ڈوالیٹی کیریئرز‘ میں ایک کیریئر کنسلٹنٹ ہے، کہتی ہیں کہ اگر آپ کام کی جگہ کے مسائل کی وجہ سے، جیسے متضاد اقدار، نوکری چھوڑ دیتے ہیں تو اس پر ’ہنگامہ آرائی‘ کرنا ٹھیک ہے۔
وہ کہتی ہے کہ ’لیکن آپ اپنی توانائی کی قیمت پرایسا کرتے ہیں۔ میں کشتیاں جلانے کو ‘بنیادی غلطی’ سے ‘اضافی تناؤ’ کے درجے تک نیچا کر رہی ہوں۔‘
ایبی جو اب 37 سال کی ہے، نے بالآخر یہ دریافت کیا کہ اس کا کشتیاں جلانے کا عمل اس کے کیریئر کے خاتمے کا سبب نہیں بنا تھا۔ وہ انڈسٹری میں ایک اور کام تلاش کرنے میں کامیاب رہی جسے وہ پسند کرتی ہے۔
یہاں تک کہ نیو یارک میں مقیم کیریئر اور لیڈر شپ کوچ، ریچل گیریٹ، اپنے ابتدائی کیریئر کے ایک واقعے کو یاد کرتے ہوئے جس میں اس نے ایک ملازمت دوسری ملازمت کے لیے چھوڑ دی تھی، اپنے کلائینٹس کو مشورہ دیتی ہے کہ جب وہ ملازمت چھوڑیں تو اپنے آجر کے ساتھ اچھے تعلقات برقرار رکھتے ہوئے استعفیٰ دیں۔
جس خاتون کو اس نے استعفیٰ دیا تھا اس نے اسے بتایا تھا کہ وہ ایک کشتی جلا کر جا رہی ہے۔ ’مجھے اس لمحے اس کی بات سمجھنے میں کچھ وقت لگا۔ لیکن جو بات میرے لیے نمایاں ہے وہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ آپ کی زندگی پر اختیار رکھتے ہیں۔ جبکہ حقیقت میں یہ آپ نے طے کرنا ہوتا ہے کہ آپ اپنی کہانی، اپنا بیانیہ اور اپنے کیریئر کو کیسے چلا رہے ہیں، آیا اس پر آپ کنٹرول کرتے ہیں۔‘
ریچل گیریٹ کہتی ہے کہ بالآخر ’کشتی جلانے کا خیال کیا ہے اس کو وہی طے کرتا ہے جو اس وقت سے گزرتا ہے۔ ہم آپ کی حدود طے کرنے کی اہمیت کے بارے میں مزید بات چیت کر رہے ہیں، خاص طور پر وبائی دور کے بعد سے۔ اگر آپ کسی برے ساتھی کے ساتھ کام کر رہے ہیں، یا کسی ایسے شخص کے ساتھ جو آپ کا احترام نہیں کرتا ہے، تو آپ کا اس کے ساتھ تعلقات کی حد مقرر کرنا ایک کشتی جلانے کے مترادف ہے۔
لیکن آپ کو اپنے لیے خود آواز اٹھانے کی ضرورت ہے چاہے کچھ لوگ اسے پسند نہ بھی کریں۔‘