امریکہ اور چین کے درمیان سرد جنگ کے نئے دور کی وجہ سے آئی فون بنانے والی فوکس کون کمپنی اب بجلی سے چلنے والی گاڑیاں بنانے کا ارادہ کر رہی ہے۔
کمپنی کے چیئرمین ینگ لیو نے بی بی سی کو دیے جانے والے انٹرویو میں بتایا کہ تائیوان کی بہت سے کمپنیوں کا مستقبل کیسا ہو سکتا ہے۔
امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے تناؤ کے بیچ، ینگ لیو کا کہنا ہے کہ فوکس کون کو بدترین حالات کے لیے تیار رہنا ہے۔
67 سالہ ینگ لیو نے تائیوان کے دارالحکومت میں اپنے دفتر سے بتایا کہ ’ہمیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے رہنما امن اور استحکام کو ذہن نشین رکھیں گے۔‘
’لیکن ایک کاروباری کی حیثیت سے مجھے سوچنا ہے کہ اگر بدترین حالات پیدا ہوئے تو کیا ہو گا؟‘
جن حالات کی جانب وہ اشارہ کر رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہو سکتا ہے کہ چین تائیوان کا راستہ بند کرنے کی کوشش کرے جسے چین اپنا حصہ کہتا ہے یا پھر اس جزیرے پر حملہ آور ہو جائے۔
ینگ لیو کا کہنا ہے کہ کاروبار کو جاری رکھنے کی منصوبہ بندی تو شروع ہو چکی ہے۔ انھوں نے کہا کہ قومی سلامتی سے جڑے بہت سے سامان کی تیاری چین سے میکسیکو اور ویتنام منتقل کی جا چکی ہے۔
وہ غالباً ان سرورز کی بات کر رہے تھے جن کو حساس معلومات محفوظ رکھنے کے لیے ڈیٹا سینٹرز میں استعمال کیا جاتا ہے۔
فوکس کون یا ہون ہئی ٹیکنالوجی گروپ 1974 میں بنا تھا اور آغاز میں ٹی وی کی تیاری میں استعمال ہونے والے چھوٹے پرزے بناتے تھے۔ اب یہ دنیا کی سب سے طاقت ور ٹیکنالوجی کمپنیوں میں سے ایک ہے جو سالانہ دو سو ارب ڈالر تک کماتا ہے۔
اس وقت اس کی شہرت کی بڑی وجہ آئی فون کی آدھی سے زیادہ مصنوعات تیار کرنا ہے تاہم مائیکروسافٹ، سونی، ڈیل اور ایمازون جیسی بڑی کمپنیاں بھی فوکس کون کی کلائنٹ ہیں۔
دہائیوں تک اس کمپنی نے ایک بہترین فارمولا کے تحت کام کیا۔ وہ امریکہ میں مصنوعات ڈیزائن کرتے اور چین میں تیار کرنے کے بعد دنیا میں بیچ دیتے۔ اسی طرح وہ چھوٹے پرزے تیار کرنے والی چھوٹی سی کمپنی سے الیکٹرانکس اور ٹیکنالوجی کی دنیا کا ایک بڑا نام بن گئے۔
لیکن امریکہ اور چین کے تعلقات میں خرابی کے بعد عالمی رسد کی فراہمی میں مسائل پیدا ہوئے تو فوکس کون بھی متاثر ہوئی۔ اب وہ ان دو بڑی معیشتوں کے بیچ پھنس چکی ہے جن کے ذریعے اس نے ترقی کی تھی۔
امریکہ اور چین کے درمیان کئی معاملات پر لڑائی چل رہی ہے لیکن اس لڑائی کا ایک اہم محاذ تائیوان بھی ہے جہاں فوکس کون کا ہیڈ کوارٹر واقع ہے۔
تائیوان کافی عرصے سے متنازع معاملہ رہا ہے لیکن چینی صدر شی جن پنگ نے اتحاد کے وعدے کر کے اس معاملے کو ازسرنو متنازع بنا دیا۔ ادھر امریکی صدر جو بائیڈن نے تائیوان پر حملے کی صورت میں حمایت دینے کا کھل کر اعلان کر رکھا ہے۔
امریکہ میں چند لوگوں نے تو تائیوان کی مکمل آزادی کی بات کر کے چین کی ریڈ لائن پار کی ہے لیکن وائٹ ہاوس کا مؤقف یہ ہے کہ سفارتی تعلقات چین کے ساتھ قائم ہیں۔
امریکہ سیکرٹری خارجہ انتونی بلنکن کے دورہ چین سے امیدیں جڑی ہیں کہ شاید تعلقات میں سردمہری کم ہو سکے گی لیکن تنازع بڑھنے کے خدشات بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ ایک امریکی جنرل کے مطابق اگلے چند برسوں میں جنگ بھی چھڑ سکتی ہے۔
ولسن سینٹر کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر شیہوکو گوتو کا کہنا ہے کہ ’امریکہ اور چین سٹریٹیجک مقابلے میں لگے ہوئے ہیں اور فوکس کون دونوں سے تجارت کرنا چاہتا ہے لیکن صرف ایک ہی فاتح ہو سکتا ہے۔‘
ینگ لیو کا کہنا ہے کہ بات اتنی سادہ نہیں۔ ان کے مطابق فوکس کون کا بزنس ماڈل، جو امریکی ڈیزائن اور چینی مینوفیکچرنگ پر انحصار کرتا ہے، ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ہم بہت سے لوگوں کو کام پر رکھتے ہیں اور زیادہ ممالک، جن میں چین شامل ہے، اپنے لوگوں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘
ینگ لیو کے خیال میں چینی حکومت بھی فوکس کون جیسی کمپنیوں کو زندہ رکھنا چاہتی ہے کیونکہ ان کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو روزگار ملتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’کیا اب تک اس ماڈل پر کوئی دباؤ پڑا؟ ہمیں تو ایسا نظر نہیں آیا۔‘
تاہم مغربی ممالک اب کاروباری کمپنیوں اور ممالک کے چین سے دور ہونے کی بات کر رہے ہیں۔ یہ ایک طویل المدتی حکمت عملی ہے جس کا مقصد چین پر عالمی انحصار کو کم کرنا ہے تاہم اس حکمت عملی پر کام کا آغاز ابھی تک نہیں ہوا۔
جب ہم نے ان سے سوال کیا کہ کیا ان کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے، تو انھوں نے کافی محتاط جواب دیا۔
انھوں نے کہا کہ چند کلائنٹ ان پر زور دے رہے ہیں کہ وہ اپنی پروڈکشن چین سے باہر نکال لیں لیکن یہ فیصلہ ان کا ہے، فوکس کون کا نہیں۔
’ان کی حکومتیں ان پر چین سے دور ہونے کا دباؤ ڈال رہی ہیں۔‘
کوروبا کی وبا کا چیلنج
عالمی سیاست کے علاوہ کورونا بھی چین سے دور ہونے کی ایک اہم وجہ ہو سکتی ہے۔
کورونا کے دوران سخت پالیسیوں، قرنطینہ کے لیے جگہ کی کمی اور اومیکرون وائرس کی وجہ سے چین میں فوکس کون کے آئی فون بنانے والے دنیا کے سب سے بڑے پلانٹ پر 2022 میں مظاہرے ہوئے اور سینکڑوں ملازمین پلانٹ سے پیدل نکل گئے۔
ینگ لیو کا کہنا ہے کہ ’جو کچھ دنیا نے دیکھا اس کی وجہ ٹرانس پورٹیشن کی کمی تھی اور وہ بھی چین کی کورونا پالیسی کی وجہ سے پیدا ہوئی۔‘
جب ان سے اس معاملے پر اور سوال ہوئے تو انھوں نے تسلیم کیا کہ انھیں اس معاملے کو مختلف طریقے سے حل کرنا چاہیے تھا۔
’اگر ایسا دوبارہ کبھی ہوا تو میں پروڈکشن روک دوں گا۔‘ انھوں نے واضح کیا کہ وہ اپنےکلائنٹس کی ناراضگی بھی مول لینے کو تیار ہیں۔
ان کی کمپنی کی کامیابی یقینا کلائنٹس کی وجہ سے ہے لیکن فوکس کون بھی ان کلائنٹس کے لیے اتنی ہی ضروری ہے۔
یہ سمجھنے کے لیے کہ ایپل کے لیے فوکس کون کتنی اہمیت رکھتی ہے، صرف یہ دیکھنا کافی ہو گا کہ یہ کمپنی کتنے آئی فون بناتی ہے، چند تخمینوں کے مطابق 60 فیصد۔
چین میں موجود فیکٹریاں آئی فون کے چند سب سے اہم پرزے تیار کرتی ہیں جن میں کیمرا ماڈیول، کنیکٹرز اور کیمرہ کی کیسنگ تک شامل ہیں۔
پہیوں پر آئی فون
اسی مہارت کی وجہ سے ینگ لیو کو امید ہے کہ ان کی کمپنی اپنی اگلی کوشش میں بھی کامیاب ہو جائے گی اور یہ الیکٹرک گاڑیوں کے بارے میں ہے۔
وہ ہمیں ایک گاڑی میں سفر کروانے لے گئے جس کے دوران انھوں نے گاڑی کے کنٹرول پینل کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’دیکھیں یہ ایک بڑا آئی فون ہے اور ہم اس سے واقف ہیں۔‘
چمکتی دمکتی یہ سفید رنگ کی ایس یو وی فوکس کون کی بنائی ہوئی تھی جس کی قیمت کا تخمینہ عالمی مڈل کلاس کو ذہن میں رکھتے ہوئے لگایا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’روایتی گاڑیوں میں مکینیکل انجن ہوتا ہے لیکن الیکٹرک گاڑیوں میں بیٹری اور موٹر ہوتی ہے اور اسی لیے یہ ہمارے لیے ایک اچھا موقع ہے۔‘
فوکس کون کو امید ہے کہ وہ اگلے چند برس میں الیکٹرک گاڑیوں کی عالمی مارکیٹ کا پانچ فیصد حصہ حاصل کر لے گی۔
ان کے مطابق ایک ہی مقام پر الیکٹرک گاڑیاں نہیں بنائی جائیں گی۔ ان کے منصوبے کے تحت امریکہ، تھائی لینڈ، انڈونیشیا اور شاید انڈیا میں بھی گاڑیاں تیار کرنے کی فیکٹری لگائی جائے۔
فی الحال تو ان کی کمپنی وہی کام کرنے پر توجہ رکھ رہی ہے جو اسے سب سے اچھا آتا ہے یعنی الیکٹرانک مصنوعات تیار کرنا لیکن مستقبل قریب میں ہو سکتا ہے کہ فوکس کون اپنی تیار کردہ گاڑیاں بیچنا شروع کر دے۔