اہم خبریں

آئی ایم ایف معاہدے کے بعد سٹاک مارکیٹ میں ریکارڈ تیزی، کیا معیشت میں بہتری کا اشارہ ہے؟

پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں سوموار کے روز کاروبار کے آغاز کے پہلے چند منٹوں میں ہی انڈیکس 2200 پوائنٹس سے زائد بڑھ گیا۔

انڈیکس میں چند منٹوں میں بے تحاشہ اضافے کے بعد کراچی سٹاک مارکیٹ میں اپر سرکٹ خود کار نظام کے تحت فعال ہو گیا اور مارکیٹ میں ٹریڈنگ لگ بھگ ایک گھنٹے کے لیے بند ہو گئی۔

پاکستان سٹاک مارکیٹ میں چند منٹوں میں 2200 پوائنٹس سے زائد تاریخی اضافہ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ سٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری کے چند دن بعد ریکارڈ کیا گیا۔

30 جون کو پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کے سٹینڈ بائی معاہدے کی منظوری کے بعد سوموار کے روز پاکستان سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کا پہلا روز تھا اور اس کے آغاز کے ساتھ ہی مارکیٹ میں خریداری کا رجحان غالب رہا جو پورے کاروباری سیشن میں جاری رہا۔

مارکیٹ میں کاروبار کے اختتام پر انڈیکس 2446 پوائنٹس اضافے کے بعد بند ہوا جو سٹاک مارکیٹ میں ایک دن میں سب سے بڑا اضافہ ہے۔

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں گذشتہ کئی مہینوں سے مندی کا رجحان غالب تھا تاہم سوموار کے روز انڈیکس میں ہونے والا اضافہ ایک دن میں ہونے والا سب سے بڑا اضافہ ہے۔

سٹاک ایکسچینج میں کاروبار کے دوبارہ آغاز پر بھی مارکیٹ میں خریداری کا رجحان غالب رہا اور مارکیٹ نے 246 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا۔

اس سے پہلے سٹاک مارکیٹ انڈیکس میں کسی ایک دن میں سب سے بڑا اضافہ 11 اپریل 2022 میں ریکارڈ کیا گیا تھا جب انڈیکس 1700 پوائنٹس بڑھ گیا تھا۔

یہ اضافہ پاکستان میں سابقہ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے دو دن بعد ریکارڈ کیا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے پانچ جون 2017 کو 1566 پوائنٹس کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا۔

سٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی کی وجہ کیا رہی؟

پاکستان سٹاک ایکسچینج میں سوموار کے روز ملکی تاریخ کی سب سے ریکارڈ تیزی پاکستان کے لیے آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کے دو دن بعد ریکارڈ کی گئی۔

پاکستان کو اس معاہدے کے تحت تین ارب ڈالر اگلے نو ماہ میں ملنے ہیں جس کے بعد ماہرین کے مطابق پاکستان کے دیوالیہ ہونے کے خدشات میں بہت زیادہ کمی آ گئی ہے اور ملک کو قلیل مدتی بنیاد پر ریلیف ملا۔

مالیاتی اور سٹاک مارکیٹ امور کے ماہر فرحان محمود نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں اضافے کی وجہ آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کے بعد مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہونا ہے جو کافی عرصے سے متزلزل تھا۔

انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف معاہدہ سے ملکی معیشت کو ایک شارٹ ٹرم ریلیف ملا جس کا سٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاروں کو بھی انتظار تھا کیونکہ پاکستان کی سٹاک مارکیٹ میں اس وقت حصص کی قیمتیں نچلی سطح پر موجود ہیں جو سرمایہ کاری کے لیے پرکشش ہے اور آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری نے انھیں یہ موقع فراہم کیا کہ وہ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کریں اور حصص کی پرکشش ویلیوز سے فائدہ اٹھائیں۔

سٹاک مارکیٹ میں تیزی لیکن کیا عام آدمی کو بھی کوئی فائدہ حاصل ہو گا؟

آئی ایم ایف معاہدے کی منظوری کے بعد پاکستان سٹاک مارکیٹ نے مثبت رد عمل دکھایا اور ڈالر کے ریٹ میں بھی کمی کی توقع کی جا رہی ہے جبکہ دوسری جانب سونے کی بلند قیمت میں بھی تنزلی ہوئی ہے۔

وفاقی حکومت کے وزرا کی جانب سے سٹاک مارکیٹ میں تیزی اور اسے معیشت میں بہتری کا رجحان قرار دیا جا رہا ہے۔

اس بارے میں ماہر معیشت اور بینک آف پنجاب کے چیف اکنامسٹ صائم علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کے بعد سٹاک مارکیٹ میں تو تیزی آئی ہے لیکن ایک عام آدمی کے لیے شارٹ ٹرم مدت میں کوئی ریلیف ممکن نہیں، جس میں خاص کر مہنگائی کا معاملہ ہے۔

تاہم انھوں نے کہا آئی ایم ایف معاہدہ ایک مثبت پیشرفت ہے جس سے معاشی محاذ پر غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ ہوا۔

صائم علی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف معاہدے سے ایکسچینج ریٹ کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی جس کا مثبت اثر ہو گا کیونکہ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ سے بھی مہنگائی بڑھی۔

صائم علی کہتے ہیں کہ اگرچہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی سے براہ راست کوئی ایسا فائدہ نہیں ہوتا کہ جس سے عام فرد کو کوئی ریلیف حاصل ہو تاہم یہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کے بحال کا ایک اعشاریہ ہے۔

کیا سٹاک مارکیٹ معاشی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے؟

اس کے بارے میں بات کرتے ہوئے پاکستان سٹاک ایکسچینج کے سابق چیئرمین منیر کمال نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ کے ذریعے معیشت کی حالت کی کچھ عکاسی تو کی جا سکتی ہے تاہم یہ پوری طرح معیشت کی تصویر پیش نہیں کرتی۔

انھوں نے کہا کہ جب مارکیٹ نیچے گرے تو یہ کہنا کہ کیونکہ سٹاک مارکیٹ ڈوب رہی ہے اس لیے معیشت بھی ڈوب رہی ہے یا پھر جب مارکیٹ چلے اور یہ کہنا کہ معاشی حالت سدھر چکی ہے، دونوں ہی دعوے صحیح نہیں ہوتے۔

انھوں نے کہا کہ سٹاک مارکیٹ میں تیزی کا رجحان ایک مثبت اقتصادی اعشاریہ ضرور ہے تاہم اس بنیاد پر معیشت میں مکمل بہتری کی بات کرنا صحیح نہیں ہو گا۔

سٹاک مارکیٹ میں کام کرنے والی کمپنی اے کے ڈی سیکورٹیز کے چیف ایگزیکٹو آفیسر فرید عالم نے کہا کہ آیا سٹاک مارکیٹ معیشت کی تصویر پیش کرتی ہے یہ ’ایک تاریخی سوال ہے۔‘

ان کے مطابق ہر حکومت اس سے اپنا فائدہ اٹھاتی ہے۔ ’جب سٹاک مارکیٹ اوپر جاتی ہے تو ہر حکومت اس کا کریڈٹ لیتی ہے اور اسے معیشت میں بہتری سے جوڑتی ہے تاہم جب سٹاک مارکیٹ گِر جاتی ہے تو حکومت کہتی ہے کہ اس کا معیشت سے کوئی تعلق نہیں۔‘

صائم علی نے بتایا کہ سٹاک مارکیٹ کو معیشت میں بہتری یا خرابی کا معیار قرار نہیں دیا جا سکتا۔

انھوں نے کہا کہ اس حد تک بات صحیح ہے کہ اس میں تیزی یا مندی ملکی اور بیرونی سرمایہ کاروں کے اعتماد کا پتا دیتی ہے تاہم اسے کسی طور پر معیار نہیں مانا جا سکتا کہ جو معیشت کی اصل صورتحال کو ظاہر کرے۔

وہ کہتے ہیں کہ اس میں حصص کی خرید و فروخت اور اس پر ملنے والے منافع سے سرمایہ کار اس کی جانب راغب ہو سکتے ہیں یا اپنی سرمایہ کاری سمیٹ سکتے ہیں جو صرف سرمایہ کاروں تک محدود ہو سکتی ہے کہ مارکیٹ میں سرمایہ کاری کا ماحول سازگار ہے یا نہیں تاہم اسے بڑے پیمانے پر معیشت کے رُخ کے تعین کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔

سٹاک مارکیٹ معیشت کا پیمانہ کیوں نہیں؟

پاکستان میں سٹاک مارکیٹ کو معیشت کی حالت کو دیکھنے کے لیے استعمال کیوں نہیں کیا جا سکتا اس کا اندازہ ملک کی سٹاک مارکیٹ میں سرمائے کی مالیت سے لگایا جا سکتا ہے۔

منیر کمال کے مطابق پاکستانی سٹاک مارکیٹ میں عام آدمی کا زیادہ دخل نہیں اور وہ سرمایہ کاری کے لیے سٹاک مارکیٹ کا رخ نہیں کرتا۔

انھوں نے کہا ایک عام آدمی کو بتانے کی ضرورت ہے کہ سٹاک مارکیٹ بھی سرمایہ کاری کا ایک پلیٹ فارم ہے لیکن عام افراد اس شعبے میں سرمایہ لگانے سے گھبراتے ہیں اور اس لیے ہماری سٹاک مارکیٹ کا پھیلاؤ نہیں ہو سکا ہے۔

انھوں نے عدم استحکام کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیا کہ جس کی وجہ سے سٹاک مارکیٹ میں اچانک مندی پیدا ہو جاتی ہے اور اس خوف سے عام افراد اپنی بچت اور سرمائے کو سٹاک مارکیٹ میں لگانے سے گھبراتے ہیں۔

اس سلسلے میں صائم علی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں معیشت کے دو بڑے شعبے انڈسٹری اور زراعت ہیں۔ انڈسٹری سے بمشکل 20 سے 25 فیصد کمپنیاں رجسٹرڈ ہوں تو زرعی شعبے کی کمپنیوں کا سٹاک مارکیٹ میں لسٹ ہونا نہ ہونے کا برابر ہے۔

اسی طرح خدمات کے شعبے میں ہول سیل کا بزنس بھی سٹاک مارکیٹ میں نہیں۔ اب ایسی صورتحال میں سٹاک مارکیٹ کو ایک بڑے پیمانے پر معیشت کی صورت حال کا عکاس نہیں کہا جا سکتا

انھوں نے کہا کہ معیشت کے مختلف شعبوں کی کارکردگی خود بتاتی ہے کہ پاکستانی معیشت کس صورتحال کا شکار ہے اب صرف سٹاک مارکیٹ میں تیزی کے رجحان کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ پاکستان میں معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے۔