انڈیا سے پاکستان آنے والی خاتون انجو کے والد نے کہا ہے کہ ان کی بیٹی اب ان کے اہلخانہ کے لیے مر چکی ہے۔
ہندوستان ٹائمز کے مطابق انجو کے والد گیا پرساد تھامس نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انجو نے اپنے دو بچوں کا مستقبل تباہ کر دیا۔
’جس طرح سے وہ (انجو) اپنے دو بچوں اور شوہر کو پیچھے چھوڑ کر بھاگی۔۔۔ اسے اپنے بچوں کا خیال تک نہیں آیا۔ اگر وہ یہ کرنا چاہتی تھی تو اسے پہلے اپنے شوہر کو طلاق دینی چاہیے تھی۔ وہ ہمارے لیے اب (زندہ) نہیں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس نے اسلام قبول کر لیا ہے تو انھوں نے کہا کہ مجھے اس حوالے سے کوئی اطلاع نہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ’میری دعا ہے کہ وہ وہیں مر جائے۔‘
اس سوال پر کہ کیا وہ انڈین حکومت سے انجو کو واپس لانے کی اپیل کریں گے تو گیا پرساد نے کہا کہ وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے حکام نے تصدیق کی ہے انڈیا سے پاکستان آنے والی خاتون انجو نے پاکستانی نوجوان نصراللہ کے ساتھ نکاح کر لیا ہے تاہم سرکاری حکام، نکاح خواں اور دیگر ذرائع کی جانب سے تصدیق کے باوجود انجو نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’شادی کی خبر میں کوئی صداقت نہیں۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مالاکنڈ کے ریجینل پولیس آفیسر (آر پی او) ناصر محمود ستی نے انڈین خاتون انجو اور نصراللہ کے نکاح کی تصدیق کی جبکہ نکاح خواں قاری شمروز خان کا کہنا تھا کہ انھوں نے فاطمہ (انجو) کا نصراللہ کے ساتھ نکاح دس ہزار روپے اور دس تولے سونا حق مہر کے عوض پڑھایا۔
قاری شمروز نے بی بی سی کو بتایا کہ ’مجھے نکاح پڑھانے کے لیے نصر اللہ نے بلایا تھا جو میرے جاننے والے ہیں۔ ہم ایک ہی علاقے کے رہنے والے ہیں۔ وہ دونوں اب قانونی طور پر میاں بیوی ہیں۔‘
تاہم بی بی سی کی نامہ نگار شمائلہ جعفری سے بات کرتے ہوئے انڈین خاتون انجو نے کہا کہ ان کی شادی کی خبر ’بے بنیاد‘ ہے اور یہ کہ وہ کل (منگل) واپس انڈیا جانے کی تیاری کر رہی ہیں۔
مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ نکاح کے بعد عدالت میں اس کی تصدیق اور بیان جمع کروانے کے موقع پر ’نوبیاہتا جوڑے‘ کو مکمل سکیورٹی فراہم کی گئی اور ان کی ’پرائیویسی‘ کا پورا خیال رکھا گیا ہے۔
یاد رہے کہ خیبر پختونخوا کے ضلع دیر بالا کے رہائشی نصر اللہ کی چند سال قبل انڈیا کی ریاست اتر پردیش سے تعلق رکھنے والی خاتون انجو سے سوشل میڈیا کے ذریعے بات چیت ہونا شروع ہوئی جو وقت کے ساتھ دوستی میں بدل گئی جس کے بعد رواں ماہ 21 جولائی کو انجو اس پاکستانی نوجوان سے ’ملنے‘ کے لیے پاکستان پہنچ گئیں۔
بی بی سی ہندی کے مطابق انجو پہلے سے شادی شدہ ہیں اور وہ اپنے شوہر اور دو بچوں کے ساتھ انڈیا کے الور شہر کے علاقے بھیواڑی میں رہتی تھیں۔
صحافی موہر سنگھ مینا نے بی بی سی ہندی کے لیے بھیواڑی میں موجود انجو کے 40 سالہ شوہر اروند سے بات کی تھی۔
انجو کے شوہر نے بتایا تھا کہ ’میں 40 سال کا ہوں اور انجو 35 کے لگ بھگ ہے۔ ہم دونوں اصل میں اترپردیش کے رہنے والے ہیں لیکن پچھلے کئی سالوں سے بھیواڑی میں رہ رہے ہیں۔ ہماری شادی سنہ 2007 میں ہوئی تھی۔ اب ہمارے دو بچے ہیں۔ بڑی بیٹی کی عمر 15 سال ہے اور ایک چھوٹا بیٹا ہے اور وہ دونوں سکول جاتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ اُن کی اہلیہ ’21 جولائی کو یہ کہہ کر گھر سے نکلی تھیں کہ وہ جے پور جائیں گی۔ تب سے ہم ان سے واٹس ایپ پر بات کر رہے تھے۔‘
’23 جولائی کی شام جب بیٹے کی طبیعت خراب ہوئی تو انجو سے پوچھا گیا کہ وہ کب واپس آئیں گی۔ تو انھوں نے بتایا کہ وہ پاکستان میں ہیں اور جلد ہی واپس آ جائیں گی۔‘
اروند کے مطابق انجو نے کسی کو اپنے پاکستان جانے کے بارے میں کبھی شک نہیں ہونے دیا اور انھوں نے کبھی بھی انجو کا فون چیک نہیں کیا کیونکہ ’اس سے رشتہ خراب ہوتا ہے۔‘
تاہم پیر کے روز انڈیا کے ٹی وی چینل زی نیوز سے ویڈیو کال کے ذریعے بات کرتے ہوئے انڈین خاتون انجو کا کہنا تھا کہ ’شوہر کو یہ علم تو تھا ہی کہ میں باہر جا رہی ہوں اور میں نے سوچا کہ جب میں بارڈر پار کر لوں گی تو انھیں بتا دوں گی اور میں نے انھیں بتایا بھی تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ چاہتی تھیں کہ وہ اپنے بیٹے کو بھی پاکستان ساتھ لے کر آئیں مگر انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ اس کو بھی پاسپورٹ کی ضرورت ہو گی۔
زی ٹی وی کے اینکر کے اس سوال پر کہ کیا آپ پاکستان میں نصراللہ سے شادی کرنے والی ہیں، جس پر انجو نے کہا تھا کہ وہ پاکستان نصراللہ سے شادی کرنے نہیں آئی ہیں۔
’میرا ایسا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے۔ وہ بس میرے دوست ہیں، ان سے ملنے اور پاکستان گھومنے آئی ہوں۔‘
ایک سوال میں ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نصر اللہ سے ملنے کا شوق تو تھا ہی لیکن میں یہاں آنا چاہتی تھی کیونکہ عام جگہوں پر تو سب چلے جاتے ہیں لیکن پاکستان آنے کا خطرہ تو کوئی کوئی مول لیتا ہے۔‘
ڈسڑکٹ پولیس افسر دیر بالا مشتاق احمد خان نے سوموار کو پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انجو واہگہ بارڈر کے راستے لاہور پہنچی تھیں جہاں سے راولپنڈی تک کا سفر انھوں نے بذریعہ بس کیا تھا۔
راولپنڈی میں نصراللہ نے انجو کا استقبال کیا تھا۔
29 برس کے نصر اللہ نے چند روز قبل بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اگلے دو سے تین دن میں انجو سے باضابطہ منگنی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے دس بارہ دن بعد انجو واپس انڈیا چلی جائیں گی۔
ان کا مزید کہنا تھا ’اس کے بعد انجو دوبارہ شادی کے لیے پاکستان آئیں گی۔ یہ میری اور انجو کی ذاتی زندگی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس میں مداخلت کی جائے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ میڈیا سے بھی دور رہا جائے۔‘
یہ کہانی حال ہی میں انڈین نوجوان سچن کی محبت میں گرفتار ہو کر انڈیا پہنچنے والی پاکستانی خاتون سیما حیدر سے ملتی جلتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ انجو ویزہ لے کر قانونی طریقے سے پاکستان آئی ہیں جبکہ پاکستانی خاتون غیرقانونی طریقے سے بذریعہ نیپال انڈیا پہنچی تھیں۔
پاکستان اور انڈیا کے شہریوں میں ایسی محبت کی کہانیاں نئی نہیں ہیں تاہم دونوں ملکوں میں تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے اب دونوں ممالک ایک دوسرے کے شہریوں کو کم سے کم ویزے دیتے ہیں۔
انجو کے لیے بھی پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا آسان نہیں تھا۔ خصوصاً دیر بالا تک پہنچنے کے لیے جو ایک دور دراز ضلع ہے جس کی ایک سرحد افغانستان سے ملتی ہے۔
تو آخر انجو اور نصر اللہ کی یہ کہانی کیسے شروع ہوئی اور انجو کو پاکستان کا ویزہ اور دیر بالا جانے کی اجازت کیسے ملی؟
’ویزہ حاصل کرنے میں دو سال لگے‘
نصر اللہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ اُن کا انجو سے فیس بک کے ذریعے چند سال پہلے رابطہ ہوا تھا لیکن اس پہلے رابطے کے بعد ’اگلے مراحل بہت جلدی طے ہوئے‘۔
نصر اللہ کہتے ہیں کہ ’پہلے یہ رابطہ دوستی اور پھر محبت میں تبدیل ہو گیا جس کے بعد ہم دونوں نے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کیا تھا۔‘
نصر اللہ کے مطابق ان کے گھر والے اس فیصلے میں ان کے ساتھ ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’دونوں میں طے ہوا کہ انجو پاکستان کا دورہ کریں گی، میرے خاندان سے ملیں گی اور ہم پاکستان میں منگنی کریں گے، جس کے کچھ عرصے بعد ہم شادی کر لیں گے۔‘
نصراللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو کے لیے پاکستان کا ویزہ حاصل کرنا بہت مشکل تھا، مگر ہماری نیت تھی اور خلوص تھا جس کی وجہ سے ہم دونوں نے بالکل ہمت نہیں ہاری ہے۔‘
ایک جانب انجو دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کے چکر لگاتی رہیں جبکہ نصر اللہ پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں وزارت خارجہ اور دیگر دفاتر کے چکر کاٹتے رہے۔
نصر اللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ وہاں پر حکام کو قائل کرتی رہیں اور میں یہاں پر حکام کو قائل کرتا رہا کہ ویزہ انجو کا حق ہے اور ہم اگر ملنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملنے دینا چاہیے۔‘
ان کے مطابق اس پورے عمل میں دو سال کا عرصہ لگا جس کے بعد انجو کو پاکستان کا ویزہ بھی مل گیا اور ان کو دیر بالا جانے کی اجازت بھی دے دی گئی۔
’انجو پختونوں کی مہمان ہے‘
ایک انڈین خاتون کی موجودگی سے اہل علاقہ بھی خوش ہیں۔
نصر اللہ کے مقامی علاقے کی سیاسی و سماجی شخصیت فرید اللہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’انجو جمعہ کے روز صبح کے وقت دیر بالا پہنچیں جب شدید بارش ہو رہی تھی۔‘
’اہلیان علاقہ شدت سے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ ہم سنیچرکو شاندار استقبالہ دیں گے مگر بدقسمتی سے علاقے میں ایک فوتگی ہو گئی۔‘
فرید اللہ کا کہنا تھا کہ ’انجو پختونوں کی مہمان اور بہو ہے۔ وہ جب تک رہنا چاہے، رہ سکتی ہے۔ اس کو کوئی تکلیف، کوئی پریشانی نہیں ہو گی۔ ہم اس بات کو ہر صورت میں یقینی بنائیں گے کہ اس کو ہمارے پاس کوئی تکلیف نہ پہنچے اور اس کو ساری سہولتیں میسر ہوں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں خوشی کا سماں ہے۔ ہمارے گھروں کی خواتین جوق در جوق انجو کو ملنے جا رہی ہیں، اس کو تحفے تحائف بھی دے رہی ہیں اور اس کو یہ یقین بھی دلا رہی ہیں کہ وہ کسی بات کی فکر نہ کرے۔‘