وہ شخص جو بار بار رشتہ ٹھکرائے جانے پر شادی کیے بغیر ہی جڑواں بچوں کا باپ بن گیا

پرتیش ڈیو کی قسمت میں سرکاری نوکری نہیں تھی۔ اسی وجہ سے ان کی شادی بھی نہ ہو سکی۔

لیکن ان کو بچوں سے محبت تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان کا بھی خاندان ہو۔ ایسے میں انھوں نے سروگیسی کا سہارا لینے کا فیصلہ کیا۔

وہ شاید ان آخری چند لوگوں میں سے ایک ہیں جو شادی کے بغیر ہی جڑواں بچوں کے باپ بنے ہیں۔

ان کا ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں جو ایک سال کے ہونے والے ہیں۔ پرتیش ڈیو خوش قسمت تھے کہ سروگیسی کے نئے قانون کے نافذ ہونے سے چند روز قبل ہی وہ سروگیٹ باپ بن گئے، ورنہ اب ان کے لیے ایسا کرنا ممکن نہ رہتا۔

سروگیٹ باپ بننے کی وجہ؟

پرتیش کی عمر 37 سال ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جب لڑکیوں کو علم ہوتا کہ ان کے پاس سرکاری نوکری نہیں ہے تو وہ شادی سے انکار کر دیتیں۔

وہ زیادہ پڑھے لکھے بھی نہیں۔ انھوں نے صرف 12ویں جماعت تک تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ شادی کے لیے لڑکی نہ ملنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی۔

بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے پرتیش ڈیو کا کہنا تھا کہ ’معاشرے میں بہت سے مرد ایسے ہیں جنھیں شادی کے لیے لڑکیاں نہیں مل رہیں کیونکہ والدین اپنی بیٹیوں کی شادی سرکاری نوکریوں والے نوجوانوں سے کرنا پسند کرتے ہیں۔‘

’ہمارے پاس زمینیں اور جائیدادیں ہیں، لیکن ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ ان کے لیے صرف سرکاری نوکری اہم ہے۔‘

پرتیش کے والد بھانو شنکر ڈیو کے مطابق ’ہماری ذات میں سٹے کی شادی کا رواج ہے۔ یعنی ایک بیٹی دینا اور دوسری لینا۔ کافی تلاش کرنے کے بعد بھی پریتیش کے لیے کوئی لڑکی نہیں مل سکی۔‘

پرتیش بھاؤ نگر میں ایک بینک کے لیے کسٹمر سروس سینٹر چلاتے ہیں۔ ان کے والدین سورت میں رہتے ہیں۔

وہ خود کو تنہا محسوس کرتے تھے اور شادی شدہ نہ ہونے کے باوجود باپ بننا چاہتے تھے۔ کچھ لوگوں نے ان کو سروگیسی کا مشورہ دیا۔

پرتیش ڈیو کا کہنا ہے کہ ’مجھے سروگیسی کے ذریعے باپ بننے پر فخر ہے اور خود کو خوش قسمت بھی سمجھتا ہوں کیونکہ اب نئے قانون کے مطابق مجھ جیسا غیر شادی شدہ مرد سروگیسی کے ذریعے باپ نہیں بن سکتا۔‘

احمد آباد میں پریتش کی سروگیسی کنسلٹنٹ ڈاکٹر پارتھا باویسی کہتی ہیں کہ ’اسے شادی نہ ہونے کا افسوس تھا اور وہ ایک مکمل خاندان چاہتا تھا۔ اسی لیے وہ اپنی خواہش لے کر میرے پاس آیا۔‘

جڑواں بچوں کا باپ

باپ بننے کا لمحہ پرتیش کے لیے اہم تھا۔

پرتیش کہتے ہیں کہ ’جب وہ دونوں بچے میری دنیا میں آئے تو میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ ہنسوں یا روؤں۔ جب میں نے ان کو پہلی بار پکڑا تو یہ میری زندگی کا بہترین لمحہ تھا۔ میں اسے بیان نہیں کر سکتا۔‘

ڈاکٹر پارتھا بویسی کہتی ہیں کہ ’پرتیش کو دیکھ کر ایسا لگا جیسے اسے دنیا کی تمام خوشیاں مل گئیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے اسے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ باپ بن گیا ہے۔‘

پرتیش کے والد اور والدہ بھی دادا دادی بننے پر خوش ہیں۔

بھانوشنکر کہتے ہیں کہ ’بچوں کے بغیر گھر بہت خالی لگتا تھا۔ اب تو گویا سارا گھر خوشیوں سے منور ہو گیا ہے۔ قدرت کے کرم سے بیٹی اور بیٹا دونوں گھر میں آگئے۔‘

خاندان نے بیٹے کا نام دھیریا اور بیٹی کا نام دیویا رکھا ہے۔

پرتیش کا کہنا ہے کہ انھیں اولاد ہو جانے کے بعد شادی نہ کرنے کا افسوس نہیں رہا۔

کیا وہ پسند کی لڑکی ملنے پر شادی کرنا چاہیں گے؟

جب ان سے یہ سوال ہوا تو انھوں نے کہا کہ ’میں اب شادی نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری ہونے والی بیوی میرے بچوں کی ٹھیک طرح سے دیکھ بھال کرے گی یا نہیں۔ اب میرا زندگی میں ایک ہی مقصد ہے – اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرنا۔‘

سروگیسی یا ’کرائے کی کوکھ‘ کیا ہے؟

حمل نہ ہونے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں۔کچھ خواتین اپنی مرضی سے بھی حاملہ نہیں ہونا چاہتیں جب کہ کچھ کو طبی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔

ایسے میں سروگیسی کا راستہ موجود ہوتا ہے۔ یعنی جب کوئی جوڑا بچہ پیدا کرنے کے لیے دوسری عورت کے رحم کا سہارا لیتا ہے۔

اس عمل میں دوسری عورت کے ذریعے کسی جوڑے کے بچے کو جنم دییا جاتا ہے۔

ڈاکٹر پارتھا بویسی کہتی ہیں کہ ’پرتیش کے نطفے لیے گئے اور ایک عورت (جس کی شناخت خفیہ رکھی گئی ہے) کے انڈے لیے گئے اور اس کے بعد جنین کو IVF کے ذریعے تیار کیا گیا اور سروگیٹ ماں کے رحم میں پیوند کیا گیا۔‘

’ہم نے امکانات کو بڑھانے کے لیے دو ایمبریو لگائے۔ لیکن دونوں جنین تیار ہوئے اور جڑواں بچے پیدا ہوئے۔‘

اس سروگیسی میں عورت اپنے یا کسی دوسرے ڈونر کی مدد سے یا جوڑے کی عورت کے بیضے کے ذریعے، ڈونر یا جوڑے کے مرد کے سپرم کی مدد سے جوڑے کے لیے حاملہ ہو جاتی ہے۔

ایک عورت جو کسی اور کے بچے کو اپنے پیٹ میں رکھتی ہے اسے ’سروگیٹ ماں‘ کہا جاتا ہے۔

سروگیسی کی اقسام

سروگیسی کی دو قسمیں ہیں۔

روایتی سروگیسی میں والد یا عطیہ دہندہ کے سپرم کو سروگیٹ ماں کے انڈوں کے ساتھ ملایا جاتا ہے۔

اس کے بعد ڈاکٹر مصنوعی طور پر سپرم کو براہ راست سروگیٹ عورت کے سرویکس، فیلوپین ٹیوب یا بچہ دانی میں داخل کرتا ہے۔

سروگیٹ ماں کے رحم میں جنین بنتا ہے اور پھر سروگیٹ ماں اس ایمبریو کو نو ماہ تک اپنے رحم میں رکھتی ہے۔ اس صورت میں سروگیٹ ماں بچے کی حیاتیاتی ماں ہوتی ہے۔

اگر اس صورت میں باپ کا نطفہ استعمال نہ ہوا ہو تو کسی اور مرد کا نطفہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی عطیہ دہندہ کا نطفہ استعمال کیا گیا تھا، تو باپ کا جینیاتی طور پر بچے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

دوسری قسم کی سروگیسی میں، سروگیٹ ماں کا جینیاتی طور پر بچے سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

یعنی سروگیٹ ماں کے انڈوں کو استعمال نہیں کیا جاتا۔ وہ صرف ایک بچے کو جنم دیتی ہے۔ اس معاملے میں سروگیٹ ماں بچے کی حیاتیاتی ماں نہیں ہوتی۔

انڈیا میں تمام IVF مراکز میں سروگیسی کی یہ دوسری قسم ہی زیادہ پائی جاتی ہے۔

کمرشل سروگیسی میں سروگیٹ ماں کو بچے کو جنم دینے کا معاوضہ دیا جاتا ہے۔ لیکن انڈیا میں نئے قانون کے مطابق اب کمرشل سروگیسی پر پابندی لگا دی گئی ہے۔

دوسری جانب چند جوڑے سروگیٹ ماں کو اپنے ساتھ رہنے کی دعوت دیتے ہیں جو رشتہ دار یا اجنبی ہو سکتی ہے۔ اس صورت میں، جوڑا سروگیٹ ماں کے تمام اخراجات برداشت کرتا ہے۔

انڈیا کا نیا سروگیسی قانون کیا ہے؟

سروگیسی کے نئے قانون، سروگیسی (ریگولیشن) ایکٹ 2021 کے مطابق اب کوئی غیر شادی شدہ مرد سروگیسی سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا۔

نئے قانون کے مطابق صرف بے اولاد جوڑے ہی سروگیسی کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔

ان کی عمریں 25 سے 50 کے درمیان ہونی چاہئیں۔ ان کا پہلے سے کوئی بچہ نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی انھوں نے کوئی بچہ گود لیا ہو۔

عورت صرف اس صورت میں سروگیسی کا فائدہ اٹھا سکتی ہے جب وہ بیوہ یا طلاق یافتہ ہو اور اس کی عمر 35 سے 45 سال کے درمیان ہو۔

قانون کسی بھی بیوہ یا مطلقہ عورت کو سروگیسی کے لیے اپنے انڈے عطیہ کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ تاہم اس کی عمر 35 سے 45 سال کے درمیان ہونی چاہیے۔

جو جوڑے سروگیسی کے تحت بچہ پیدا کرنا چاہتے ہیں انہیں سروگیسی کے لیے خصوصی سرکاری میڈیکل بورڈ سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ سروگیسی کا عمل بورڈ کی منظوری کے بعد ہی آگے بڑھ سکتا ہے۔

اس قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو 10 سال تک قید اور 25 لاکھ روپے تک جرمانہ ہو سکتا ہے۔

اگر جوڑے کی موت بچے کی پیدائش سے پہلے ہو جائے تو بچے کی دیکھ بھال کی ذمہ داری جوڑے کے نامزد کردہ فرد پر ہوگی۔ یہ سروگیٹ ماں کی ذمہ داری نہیں ہے۔

انڈیا میں اس نئے قانون کے تحت ہم جنس پرستوں پر بھی سروگیسی استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ لیکن پہلے ایسا نہیں تھا۔ فلمساز کرن جوہر اور اداکار تشار کپور سروگیسی کی مدد سے سنگل فادر بنے۔

ڈاکٹر نینا پٹیل، جو گجرات میں ایک سروگیسی کلینک چلاتی ہیں، کا کہنا ہے کہ ’قانون کی یہ شق مرد کے تولیدی حق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔‘

ڈاکٹر پارتھا بویسی نے بھی اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’آج پرتیش جیسے کئی مرد ہوں گے جو اپنی پسند کا جیون ساتھی نہ ملنے کی وجہ سے شادی نہیں کریں گے۔ تو باپ بننے کی اس کی خواہش کا کیا؟ اگر آپ انڈیا میں جنسی تناسب پر نظر ڈالیں تو خواتین کی تعداد مردوں کے مقابلے میں کم ہے۔‘

انڈیا کی مختلف عدالتوں میں متعدد درخواستیں دائر کی گئی ہیں جن میں اس قانون کی مخصوص شق کو چیلنج کیا گیا ہے جو غیر شادی شدہ مردوں اور خواتین کو سروگیسی کے ذریعے بچے پیدا کرنے سے روکتی ہے۔

وہ مشہور شخصیات جنھوں نے سروگیسی کی مدد لی

انڈیا کی فلم انڈسٹری کے بڑے نام سروگیسی کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔

بالی وڈ اداکارہ پریانکا چوپڑا اور ان کے شوہر نک جونس سروگیسی کی مدد سے والدین بنے ہیں۔

بالی وڈ اداکارہ پریتی زنٹا اور ان کے شوہر بھی سروگیسی کے ذریعے جڑواں بچوں کے والدین بنے جبکہ شلپا شیٹھی سروگیسی کی مدد سے بیٹی کی ماں بنیں۔

فلمساز کرن جوہر سنگل باپ ہیں جنھوں نے سروگیسی کا سہارا لیا۔ 2017 میں وہ جڑواں بچوں کے باپ بنے تھے۔ ایکتا کپور بھی سروگیسی کی مدد سے سنگل مدر بن گئیں۔

اداکارہ لیزا رے بھی سروگیسی کی مدد سے ماں بنیں جبکہ سنی لیون نے پہلے دو بچوں کو گود لیا، بعد ازاں سروگیسی کی مدد سے دو بچوں کی ماں بنیں۔

شاہ رخ خان اور گوری خان بھی 2013 میں سروگیسی کی مدد سے والدین بنے۔ ان کے بیٹے کا نام ابرام ہے۔